گیسٹرو وائرل بیماری میں مریض کو پاخانے اور الٹیاں لگ جاتی ہیں
ڈین فیکلٹی آف میڈیسن ،چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسن ، رجسٹرار کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی اور سربراہ ایسٹ میڈیکل وارڈ میوہسپتال پروفیسر ارشاد حسین قریشی میڈیکل کے شعبے میں اپنی بہترین کارکردگی کی وجہ سے منفردمقام رکھتے ہیں انہوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس ، کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز سے ایف سی پی ایس اور پنجاب یونیورسٹی سے کارڈیالوجی میں سپیشلائزیشن کی۔ رائل کالج آف ایڈمرا سے ایف آر سی پی کیا۔ وہ ایک میڈیشن آف فزیشن کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسن کے طور پر تمام میڈیکل یونٹس جبکہ ڈین فیکلٹی آف میڈیسن کی تمام سپیشلسٹی آف میڈیشن ان کے زیر نگران کام کر رہے ہیں ۔ڈین کے اندر تمام بیماریوں کی سپیشلسٹی‘ نیورولوجی‘ سائیکاٹری‘ انفرالوجی وغیرہ کی میڈیکل نقطہ نظر سے ٹیچنگ کی ضروریات کو ڈیل کرتے ہیں۔ بقول پروفیسر ارشاد حسین قریشی کہ’’ گورنمنٹ نے میو ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سینئر ترین پروفیسر لگانے کا فیصلہ کیا اور سینئر ترین پروفیسرڈاکٹر اسد اسلم کو میو ہسپتال کا چیف ایگزیکٹو آفیسر لگایا ہے ۔ وہ ہسپتال کے ایم ایس اورپروفیسروں کے درمیان کوارڈینیشن کے فرائض بخوبی نبھا رہے ہیں اب کسی کو اپنے کام کی انجام دہی میںکوئی مشکل پیش نہیںآتی ہے‘‘۔
سربراہ ایسٹ میڈیکل وارڈ ز (مردانہ وزنانہ) میوہسپتال پروفیسر ارشاد حسین قریشی نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے بتایا’’ بارشیوں کے موسم میں مچھروں اور مکھیوں کی افزائش بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لہٰذا ان سے پھیلنے والی انفیکشن کی بیماریاں اس موسم میں بہت زیادہ ہو تی ہیں۔ گیسٹرو وائرل بیماری میں مریض کو پاخانے اور الٹیاں لگ جاتی ہیں۔ بعض مریضوں میں پانی کی اتنی کمی ہو جاتی ہے کہ ہسپتال میں داخل ہونا پڑ جاتا ہے ۔ بعض مریضوں میں پانی کی کمی اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ ان کے گردے فیل ہو جاتے ہیں۔ مکھیاں ٹائیفائیڈ کے جراثیم پھیلانے میں کردار ادا کرتی ہیں۔ٹائیفائیڈبخار بارش اور حبس کے موسم میں عام ہوتا ہے جو لمبے عرصہ تک چلتا ہے اور تشخیص وقت پر نہ ہو تو یہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ مچھروں سے پھیلنے والی دو اہم بیماریاں ڈینگی اور ملیریا بھی ہے۔ گو کہ پنجاب میں ڈینگی کنٹرول ہے مگر کے پی کے میں ڈینگی وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ میو ہسپتال میں بھی دو تین ڈینگی کے مریض ایمرجنسی میں آ رہے ہیں۔ پنجاب میں بھی ڈینگی مچھر کے اثرات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے۔ ڈینگی مچھر کاٹنے سے کلاسیکل بخار ہوتا ہیاور جسم میں شدید دردیں ہوتی ہیں۔ ان کے ٹیسٹ پازیٹو ہوتے ہیں۔ مگر اب پیچیدہ ڈینگی بخار یعنی ڈینگی ہمریجک فیور کے مریض زیادہ آ رہے ہیں۔ اس میں مریض کے پیٹ اور پھیپھڑوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے۔جس کوپہلی مرتبہ ڈینگی بخار ہو اس کو ڈینگی ہمریجک فیور ہونے کا بہت کم چانس ہوتا ہے۔ لیکن جس کو دوسری مرتبہ ڈینگی بخار ہو جائیاسے ڈینگیہمریجک فیور ہونے کا بہت زیادہ چانس ہوتا ہے۔ اس بخارمیں خون کی چھوٹی باریک نالیوں سے مائع کے اخراج سے مریض کا سانس خراب ہو جاتا ہے ۔ جراثیم دماغ میں جا سکتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کو غنودگی اور بے ہوشی ہو تی ہے۔ ایسے مریضوں میں موت کے چانسز بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی بخارکی تیسری قسم میں مریض کا بلڈپریشر لوہو جاتا اور مریض اپنے حواس کھو بیٹھتااور وہshock میں چلا جاتا ہے۔ مچھروں سے پھیلنے والی دوسری اہم بیماری ملیریا ہے۔ بارشوں میں جب پانی جمع ہو گاتو ڈینگی کا لاروا اور ساکیٹو (ملیریا پھیلنے والا مچھر) کی افزائش ہوتی رہے گی۔ پاکستان میں پلاس موڈیم ویواکس اورfalciparumدونوں ٹائپ کا ملیریا ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔پلاس موڈیم ویواکس ہلکا ملیریا ہے جبکہ دوسری ٹائپ کا ملیریا پیچیدہ ہوتا ہے۔ گورنمنٹ نے ملیریا کنٹرول پروگرام شروع کیا ہوا ہے۔ ڈینگی مچھر سپرے ہونے سے ملیریا پھیلانے والا مچھر بھی مر جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے یہاں ملیریا کی صورتحال اتنی سنگین نہیں ہوتی۔ مچھر بیماریاںپھیلانے کی وجہ بنتا ہے۔ملیریا کا ٹیسٹ کرانے سے ہی علم ہوتا ہے کہ یہ نارمل بخار ہے یا ملیریا۔ ملیریا بخار کا زیادہ شکار بچے ہوتے ہیں کیونکہبچے بڑوں کی نسبت مچھر سے اپنا بچاؤ نہیں کر پاتے۔
٭ ملیریا بخار کب پیچیدہ ہو جاتا ہے؟
ج: ملیریا بخار میںسردی لگتی ہے لیکن جسم میں اتنی دردیں نہیں ہوتیں جتنی ڈینگی بخار میں ہوتی ہیں۔چار قسم کے ملیریا میں سے فلسی پام ملیریا anopheles mosquito مادہ مچھر کے پھیلنے سے ہوتا ہے۔ مریض کے خون کے خلیے اتنے زیادہ ٹوٹتے ہیں کہ مریض کو کالے رنگ کا پیشاب آتا ہے۔ ہیمو گلوبن پیشاب میں نکلتی ہے اس کو بلیک واٹرفیور کہتے ہیں جو vivas جراثیم کی پچیدگی سے ہوتا ہے یہ بڑی خطرناک صورت ہوتی ہے۔ اس میں مریض دوائی سے ٹھیک توہو جاتا ہے لیکن اس کے جراثیم جگر میں چھپ جاتے ہیں اور پھر مہینے بعد دوبارہ ملیریا ہو جاتا ہے۔ اس کو ریڈی کیٹ کرنے کے لئے سپیشل دوائی ہوتی ہے جو مارکیٹ میں نہیں ملتی۔ وہ صرف ہیلتھ شعبہ کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اور ای ڈی او ہیلتھ کے دفاتر سے ملتی ہے اسےprimaquine کہتے ہیں یہ دوائی فری ملتی ہے۔ جن کو ملیریا بخارہو رہا ہو ان کو اگر سادہ ملیریا کی دوائی کے استعمال سے بخار ختم نہیں ہوتا ہے تو پھر primaquine سے جگر میں چھپے جراثیم ختم کرنے پڑیں گے۔بارش کے موسم میں الرجی کی بیماریاں زیادہ ہو جاتی ہیں۔ دمے کے مریض کا دمہ خراب ہو جاتا ہے۔ پرانے برونکائٹس کے مریضوںکو کھانسی اور بلغم کی شکایت بڑھ جاتی ہے۔ دائمی سگریٹ نوشی کرنے والوں کو بھی اس موسم میں سانس کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جلد کی بیماریاں اس موسم میں زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ گرم حبس کے موسم میں جلد پر ایگزیما اور الرجی ہو جاتی ہیں۔ جسم پر پت دانے اور پھوڑے پھنسیاں بہت نکلتی ہیں۔ ٹائیفائیڈ‘ ملیریا‘ ڈینگی بخار اور پیٹ کے امراض بارش اور حبس کے موسم کی عام بیماریاں ہیں۔ ان بیماریوں سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ کھانے پینے سے پہلے ہاتھ ضرور دھوئیں‘ پھل اور سبزیاں اچھی طرح دھو کر کھائیں۔ کھانا اچھی طرح پکا ہوا کھائیں۔ کھانوں میں سے جراثیم مارنے کا سب سے بہترین ذریعہ کوکنگ ہے ۔ بازار کی بنی اشیاء مت کھائیں ۔فریج میں رکھے پکے کھانے کو دوبارہ اچھی طرح گرم کر کے کھائیں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ فریج میں چیزیں رکھنے سے جراثیم مر جاتے ہیں۔ فریج میں اشیاء رکھنے سے جراثیم بالکل نہیں مرتے بلکہ ان کی افزائش رک جاتی ہے۔ جونہی وہ چیزیں فریج سے نکالیں گے جراثیم کی افزائش فوری شروع ہو جائے گی۔ بارش کے موسم میں فریج میں رکھی چیزیں استعمال کرنا بہت خطرناک ہوتی ہیں۔ اس لئے کوشش کریں فریج میں رکھی چیزیں مثلاً دو تین دن سے زائد فریج میں رکھا سالن‘ دہی‘ دودھ نہ کھائیں۔ پانی ابال کر پیئیں ۔ بازار سے کٹے پھل لے کر مت کھائیں۔ یہ گیسٹرو ان ٹائٹس یعنی پیٹ کے امراض کا سبب بنتے ہیں۔ پتلے پاخانے لگے ہوں تو نمکین پانی کا استعمال کریں کیونکہ لوز موشن میں جسم میں پوٹاشیم اور سوڈیم کی کمی ہو رہی ہوتی ہے۔ جس کی کمی سے پانی کی شدید کمی ہو جاتی ہے‘ بلڈپریشر لو ہو جاتا ہے اور بلڈپریشر مسلسل لورہنے سے گردے فیل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسے مریض آتے ہیں جن کے جسم میں پانی کی کمی سے گردے فیل ہو جاتے ہیں اور مریض shock میں چلے جاتے ہیں۔ او آر ایس کا استعمال پیٹ کے امراض کے مریضوں کے لئے بہترین ہیں۔ کمیونٹی میں سب سے زیادہ تنگ کرنے والی شوگر ، بلڈپریشراور دل کی بیماریاں ہیں۔ شوگر اور بلڈپریشر کے مریض تو آؤٹ ڈور میں بھگت جاتے ہیں ان کے داخلے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر خدانخواستہ یہ بیماریاں پیچیدگی اختیار کرجائیں تب مریض کو وارڈ میں داخل کرتے ہیں۔ ہمارے وارڈزز میں سب سے زیادہ مریض ہیپاٹائٹس بی اور سی کے ہیں اور اس بیماری کے پیچیدہ ہونے سے مریض کو کالا یرقان ہوتا ہے۔ دس پندرہ سال یہ بیماری ظاہر نہیں ہوتی بیماری دائمی ہونے سے مریض کا جگر فیل ہو جاتا ہے اور مریض کو خون کی الٹیاں آتی ہیں اور پیٹ میں پانی بھر جاتا ہے ۔ اس بیماری کے علاوہ فالج‘ دائمی بلڈ پریشر اور شوگر کے مریض بھی وارڈ میں داخل ہوتے ہیں۔
٭ شوگر کے مریضوں کی کیا صورتحال ہے؟
ج :ہر پانچ میں سے ایک بندے کو بلڈپریشر اور تقریباً ہر دس میں سے ایک بندے کو شوگر کا مرض ہے۔ اگر مریض کی شوگر کنٹرول نہ ہو تو لیٹ complication میں گردوں کا فیل ہونا‘ ہارٹ اٹیک اور فالج ہو نا بڑا عام ہے۔بالغ کے شوگر کے مرض میں مبتلا ہونا موروثیت کا کردار ہے۔ شوگر کی بیماری کی وجہ مرغن غذاکھانا، کولڈ ڈرنک کا بجا پینا‘ جنک فوڈ، موٹاپا، ورزش اورواک نہ کرنا ہے ۔
٭ اینٹی بائیوٹک کا بڑھتا استعمال صحت کے لئے کتنا مضر ہے؟
ج: ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اینٹی بائیوٹک کا استعمال مریض کے لئے نقصان دہ ہے۔ اینٹی بائیوٹک ڈاکٹر کے مشورے سے ہی کھانی چاہیے ۔ اگر مریض ڈاکٹر کے مقررہ دن کی بجائے اینٹی بائیوٹک دو دن کھا کر چھوڑ دے تو اس سے قوت مدافعت میں مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے جس سے دوائی اثر کرنا چھوڑ دیتی ہے اور انفیکشن دوبارہ ہو جاتی ہے جو خطرناک ہو گی۔ اس لئے ڈاکٹر نے جتنے دن اینٹی بائیوٹک کھانے کو کہے اتنے دن ضرور کھائیں۔ انفیکشن کے خاتمے کے لیے اینٹی بائیوٹک کھانی پڑتی ہے۔ نزلہ زکام میں اینٹی بائیوٹک کھانے کی ضرورت نہیں ہے اس میں صرف مزاحمت ہی پیدا ہو گی۔یہ ڈاکٹر کا کام ہے کہ اینٹی بائیوٹک دینے کی ضرورت ہے کہ نہیں۔ سیلف میڈیکشن بہت خطرناک ہے۔
٭ بیماریوں میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟
ج:بیماریاں بہت بڑھ رہی ہیں۔لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں ہے‘ دودھ خالص نہیں ملتا‘ تمام پھلوں کے اندر انجکشن لگایا جاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی کی وجہ صاف سرنجوں کا استعمال نہ ہونا ہے ۔ واک نہ کرنے سے لوگوں کی فزیکل فٹنس خراب ہوتی جا رہی ہے۔ لوگوں میںقوت مدافعت کم ہو رہی ہے۔
گفتگو سمیٹتے ہوئے پروفیسر آف میڈیشن پروفیسر ڈاکٹر ارشاد حسین قریشی نے کہا ’’تمام ہسپتالوں میں مریض اضافی ہیں۔ دو ماہ پہلے مریض مینجمنٹ سسٹم نہیں تھا تو ایک بستر پر دو مریض ہوتے تھے۔ اب مینجمنٹ سسٹم میں بہتری آئی ہے۔ اب اضافی مریضوں کو دوسرے وارڈ میں شفٹ کرا دیتے ہیں۔ ایک بستر پر دو مریضوں کو نہیں رکھتے۔ جیسے جیسے مریض ڈسچارج ہوتے ہیں وہ مریض وارڈ میں آ جاتے ہیں۔ ایمرجنسی میں اضافی مریض آتے ہیں۔ ان کو سیٹل کرتے ہیں تو اگلی ایمرجنسی آ جاتی ہے۔ ڈبلنگ پر تو قابو پا لیا ہے مگر مریض کی تعداد میں اضافہ اتنا ہی ہے۔ مریض بہت زیادہ ہیں۔ نئے ہسپتال بننے چاہئیں۔