مخصوص مقامات پر چالان مہم عروج پرٹریفک جام معمول بن گیاوارڈن چالان کرنے میں مصروف
جگہ جگہ ون وے ٹریک پرٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آتی ہیں
بدقسمتی سے شہریوں سے زیادہ وارڈنز کی تربیت زیادہ ضروری ہے، سی ٹی او کو خصوصی اقدامات اٹھانا ہوں گے
فیصل آباد کی آبادی 80لاکھ کے لگ بھگ ہے گزشتہ سالوں میں لاتعداد ترقیاتی کام ہوئے جن میں ٹریفک کے نظام کو درست رکھنے کے لئے پنجاب حکومت نے 1040ٹریفک وارڈنز بھی بھرتی کئے۔ وارڈنز کو بھرتی کرنے کا مقصد شہر میں ٹریفک مسائل سے چھٹکارا، شہریوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا تھا۔ٹریفک پولیس کا ’’سلوگن‘‘ ہے کہ پہلے سلام پھر کلام۔ ٹریفک وارڈنز کی تعیناتی کے بعد شہریوں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ کہ ٹریفک مسائل سے نجات ملے گی مگر ٹریفک وارڈنز کی کمان سنبھالنے والے افسران کی مبینہ غفلت اور عدم دلچسپی کے باعث شہر میں مزید مسائل بڑھ گئے۔ افسران کے رویہ سے تنگ 168 کے قریب ٹریفک وارڈنز سرکاری نوکریاں چھوڑنے پر مجبوہیں۔ دوسری طرف کئی سالوں سے خراب ٹریفک سگنلز درست کروانے کے لئے عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔ جس سےآمدورفت متاثر ہو رہی ہے۔ شہر کے مصروف ترین چوراہے جی ٹی ایس چوک میں آئے روز ون وے توڑنے سے کئی ٹریفک حادثات رونما ہوتے ہیں ۔ ڈیوٹی پر کھڑے ٹریفک وارڈن اپنے چالان ٹارگٹ پورا کرنے کے بعد سایہ دار جگہ پر ڈیرے ڈال کر موبائل فونز پر مصروف ہو جاتے ہیں ،ون وے کی خلاف ورزی کرنے والے افراد ٹریفک وارڈنز کے سامنے ٹریفک قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔شہر کے مختلف مقامات لگے ٹریفک سگنلز کئی سالوں سے خراب ہیں،ٹریفک انتظامیہ کی جانب سے ان کودرست کروانے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ چیف ٹریفک آفیسر رانا معصوم نے متعدد بار دعویٰ کیا ہے کہ ٹریفک وارڈنز کو دوران ڈیوٹی موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے،ٹریفک وارڈنز کو چالان کرنے کا کوئی ٹارگٹ نہیں دیا جاتا۔اس کے برعکس شہر میں متعدد مقامات پر ڈیوٹی میں تعینات ٹریفک وارڈنز موبائل فونز پر مصروف نظر آتے ہیں۔ ٹریفک قوانین کی پاسداری نہ کرنے پر آئے روز درجنوں حادثات معمول بن چکے ہیں۔ ٹریفک وارڈنز کی بھرتی کے بعد ضلع میں سات سالوں میں ایک لاکھ سے زائد حادثات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے مختلف ٹریفک حادثات میں زخمی ہونے والے 10ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سات سالوں میں ایک لاکھ تین ہزار 188 ٹریفک حادثات میں ایک لاکھ 17ہزار 880مردوخواتین زخمی ہوئے ہیں جن میں 9497مرد جبکہ 783 23خواتین زخمی ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حادثات میں 95114افراد ایسے تھے جو خود ڈرائیونگ نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ مسافر تھے جو موٹرسائیکل اور کار میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے تھے۔ 18932افراد پیدل تھے جو ٹریفک حادثات کی زد میں آئے۔ ان ٹریفک حادثات میں 3834 ڈرائیورز بھی زخمی ہوئے جبکہ 90کم عمر ڈرائیور بھی حادثات میں زخمی ہوئے ہیں۔ ٹریفک حادثات میں 3286 افراد شدید زخمی ہوئے۔ 39673افراد کی ٹانگیں ٹوٹی ہیں 29565مردوخواتین مختلف ہڈیاں تڑوا چکے ہیں جبکہ 34220مردوخواتین معمولی زخمی ہوئے ۔ بغیر ہیلمٹ سفر کرنے والے 11145افراد سر میں چوٹ لگنے سے زخمی ہوئے ۔ ٹریفک وارڈنز اور افسران کی غفلت اور لاپرواہی کا انداز اس رپورٹ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک لاکھ 3ہزار 188 ٹریفک حادثات کس طرح رونما ہوئے ہیں۔ وہ اس رپورٹ میں معلوم ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ لاپرواہی سے گاڑی چلاتے ہوئے 36707ٹریفک حادثات ہوئے۔ تیزرفتاری کے باعث 26440حادثات پیش آئے۔ ون وے توڑتے ہوئے 7850واقعات رونما ہوئے۔ غلط انداز میں گاڑی کا موڑ کاٹتے ہوئے 10542حادثات رونما ہوئے۔ ون ویلنگ کے دوران 180نوجوان زخمی ہوئے ہیں جبکہ ٹائر بلاسٹ ہونے سے 111واقعات رونما ہوئے ہیں۔ دیگر انداز میں 21358 ٹریفک حادثات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ ٹریفک وارڈنز کادعویٰ ہے کہ مختلف اوقعات میں مختلف سکولز اور کالجز میں ٹریفک قوانین کی پاسداری کے لئے بچوں کو خصوصی لیکچر بھی دیا جاتا ہے۔ اگر بند کمروں میں ٹریفک قوانین کی آگاہی دینے والے مین سڑکوں پر قوانین کی خلاف ورزی کرتے تو قصوروار کون ہے۔ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لئے چیف ٹریفک آفیسر کو خود فیلڈ میں نکل کر ٹریفک وارڈنز کو مانیٹر کرنا ہو گا اور عوام کی آگاہی کے ساتھ ساتھ ٹریفک وارڈنز کو ٹریفک قوانین کی آگاہی کے لئے خصوصی ورکشاپوں کا بھی اہتمام کیا جائے تاکہ جو ٹریفک وارڈنز اپنا سبق بھول چکے ہیں ان کو ان کا سبق یاد ہو سکے۔