حاجی صالح محمد صدیق

تحریک پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ کارکن اور صحافت کے درخشندہ ستارے حاجی صالح محمد صدیق مرحوم کو ہم سے بچھڑے ہوئے آج چودہ برس ہو چکے ہیں۔ 22 مئی 1919ء کو پرانی انار کلی لاہور میں پیدا ہونیوالے صالح محمد صدیق نے میٹرک کا امتحان اسلامیہ ہائی سکول سے پاس کیا۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد ہی میدان صحافت میں آگئے اور پھر یہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ دوران ملازمت انہوں نے بی اے کیا انہیں انگریزی، فرانسی اور عربی زبان پر عبور حاصل تھا۔ صحافت کے اسرارورموز معروف ادیب اور صحافی باری علیگ سے سیکھے اور مولانا غلام رسول مہر اور مولانا عبدالمجید سالک جیسے بلند پایا ادیبوں اور اخبار نویسوں کی تربیت میسر آئی اور مرتضیٰ احمد خان میکشں کے زیر سایہ کام کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے آزادی صحافت کے عظیم داعی، نذر اور بے باک صحافی حمید نظامی اور پھر انکے چھوٹے بھائی مجید نظامی کی زیر ادارت روزنامہ نوائے وقت میں30 برس سے زائد عرصہ صحافتی خدمات انجام دیں۔
ابتدائی زمانے میں اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر پہلے لاہور پھر کراچی سے ہلال پاکستان کے نام سے ایک روزنامہ کا آغاز کیا اور ہلال پاکستان میں انہوں نے پہلی بار سنڈے ایڈیشن ایک رنگین رسالہ کی شکل میں شائع کرنے کا کامیاب تجربہ کیا جسے قارئین کے حلقوں میں بہت پسند کیا گیا۔ حاجی صالح محمد صدیق صحافیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو صحافت کو ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک مقدس فریضہ سمجھتی تھی، جس نے صحافت کو کسی بھی طور پر ذاتی فوائد کے حصول کیلئے استعمال نہیں کیا اور نہ کبھی اپنے قلم کو اپنی کسی ذاتی منعفت کیلئے استعمال کیا بلکہ انہوں نے صحافت کو ہمیشہ ملک و قوم کی خدمت کا وسیلہ بنایا اور عام معاشرتی مسائل اور دکھوں کو اپنے قلم کے ذریعے ارباب اختیار اور اعلیٰ ایوانوں تک پہنچایا۔ انکی نسل کے صحافیوں کا یہی جذبہ اور بے لوث پن ہے کہ ان لوگوں کو آج بھی صحافتی حلقوں میں بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
قیام پاکستان کے موقع پر صالح محمد صدیق ہندوستان سے لٹے پٹے مہاجرین کے کیمپوں میں رضا کارانہ امدادی کام کرتے رہے وہ صبح نو دس بجے گھر سے نکلتے اور رات دو تین بجے واپس آتے تھے اور انکی انہی خدمات کے اعتراف میں 14 اگست 1990ء کو پنجاب حکومت نے انہیں گولڈ میڈل عطا کیا۔ تحریک پاکستان کے دوران وہ کئی بار گرفتار ہوئے اور جیلیں بھی کاٹیں۔ حاجی صالح محمد صدیق نے جدوجہد سے بھرپور زندگی گزاری۔ انہوں نے روزنامہ زمیندار، احسان، انقلاب، شہباز، اجیت، ملاپ، ویر بھارت، پرتاپ، مغربی پاکستان، کوہستان اور جنگ سمیت کئی اخباروں میں کام کیا۔ منگلا ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی تو ان کے ایک دوست انہیں صحافت کی دنیا سے نکال کر واپڈا میں لے گئے جہاں انہوں نے کچھ عرصہ بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر خدمات انجام دیں لیکن طبیعت چونکہ صحافت کی طرف راغب تھی اس لئے جلد ہی سرکاری افسری چھوڑ چھاڑ کر دوبارہ صحافت کی دنیا میں لوٹ آئے۔ جب حسین شہید سہروردی نے لاہور سے روزنامہ مغربی پاکستان کا اجراء کیا تو انہوں نے اس میں ملازمت کرلی۔ ان دنوں حاجی لق لق کے مزاحیہ کاموں کا خاصا شہرہ تھا، حاجی صالح محمد صدیق نے روزنامہ مغربی پاکستان میں قارئین کی ضیافت طبع کیلئے ’’حاجی بقل بطورا‘‘ کے قلمی نام سے فکاہی کالم لکھنا شروع کیاجس نے جلد ہی قارئین کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ حاجی صالح محمد صدیق نے ’’سیاسی جغرافیہ’’ کے عنوان سے بھی مزاحیہ کالم لکھے جسے بعد میں ایک اشاعتی ادارے نے کتابی شکل میں شائع کیا۔خداوند کریم کی ان پر خاص عنایت تھی انہوں نے 1942ء سے لے کر اپنی وفات سے چند روز قبل تک کبھی تہجد کی نماز نہیں چھوڑی تاوقتیکہ زندگی کی ایک بھرپور اننگز کھیلنے کے بعد 30 ستمبر 2000ء کو دنیائے فانی کو چھوڑ کر سوئے عدم سدھار گئے۔ اپنے والد کی وفات بلا شبہ ہم سب بہن بھائیوں کیلئے ایک ایسا نقصان ہے جو زندگی بھر پورا نہیں ہو سکتا لیکن یہ نظام قدرت ہے کہ جو قد نفس بھی اس دنیا میں آیا ہے، اس نے ایک دن واپس جانا ہے میں جب بھی انکی کامیابیوں اور بطور والد ان کی شفقت اور مہربانیوں کو یاد کرتا ہوں تو ایک ناقابل بیان خوشی مجھے اپنے حصار میں لے لیتی ہے اور مجھے حوصلہ ملتا ہے کہ میں ایک عظیم باپ کا بیٹا ہوں جس نے زندگی میں کبھی ہمت نہیں ہاری بلکہ ہر مشکل اور چیلنج کو بڑھ کر لبیک کہا اور ہمیشہ سرخرو ہوئے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ان جیسا عظیم اور شفیق، مہربان باپ عطا فرمائے اور ہر بیٹے کو باپ کی خدمت کی وہ سعادت نصیب کرے جسے میں اپنے لئے دنیا کا سب سے بڑا اعزاز اور آخرت کی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔