برصغیر پاک و ہند میں پرانے وقتوں میں سادہ لوگوں کے ذہنوں کو ہموار کرنے اور نفسیاتی طور پر متاثرہ شخص سے کسی چیز/ بات اگلوانے کے لئے جادو جڑیاں، ٹونہ کا استعمال بکثرت کیا جاتا تھا۔ اس کو جادو جڑیاں کا کھیل کہا جاتا تھا۔ اس کھیل میں جو سنجیدگی کے ساتھ کھیلا جاتا تھا، جس چیز، آلہ کا استعمال کیا جاتا اس میں ڈفلی، ڈرم، طبلہ، ڈھول وغیرہ ہوتا۔ گھڑا، انگوٹھیاں وغیرہ بطور آلہ موسیقی کے استعمال ہوتے تھے۔
اس کھیل میں ہندو سادھو، موسیقی کے آلات کا استعمال کرتے ہوئے مخصوص قسم کی دھن سجا کر متاثرہ مریض کو ہپناٹائز کرتے اور اس کی تمام تر حرکات و سکنات/ عمل، عملیات، ذہن جسم کو اپنے مخصوص ایجنڈے کے تابع کر کے اپنے مفادات حاصل کرتے تھے آج کل مخصوص میڈیا گروپ ”امن کی آشا“ کے نام پر اپنے مخصوص ایجنڈے اور مفادات کے تحت نوجوان نسل کے ذہنوں کو ہپناٹائز کر کے آلہ موسیقی کا استعمال کر کے جس میں ماڈرن دُھنوں ”سُر شیتر“ (Sur Kshetra) ”فتح سرو¶ں کی جیت سنگیت کی“ کے تحت بظاہر ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کو تفریح مہیا کر رہے ہیں لیکن مخصوص ایجنڈا کے تحت یہ ہندوستاتی اور پاکستانی میڈیا گروپ مل کر نوجوان نسل کے ذہنوں اور رائے عامہ کو ہموار کر کے ہندوستان کے ساتھ دوستی اور تعلقات ہماری آزادی اور سالمیت کی قیمت پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہی امن کی آشا ہے؟ کیا یہی سُر شیتر ہے؟
قارئین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ سُر سنگیت کے اس پروگرام کی ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہے۔ 7، 8، 9 ستمبر اور اسی دوران اس مخصوص گروپ نے اپنا مخصوص ایجنڈا، سُر شیتر شروع کیا۔ یہ ایک مخصوص ٹیلی ویژن چینل پر ہفتہ/ اتوار کو رات 9 بجے ٹیلی کاسٹ ہوتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے پاکستانی اداکار، ہندوستانی تہذیب و تمدن، کلچر میں رنگتے جا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی اس پروگرام میں ہمارے مایہ ناز گلوکار اور رنگ لیڈر کیپٹن عاطف ہندی الفاظ کا بکثرت استعمال کر رہے ہیں جیسے منج، دیش، شیتر، پرم پرا وغیرہ وغیرہ!
یہ سُر سنگیت کی جیت ہے یا تہذیب، تمدن و کلچر و کو اپنانے کی روایات۔ حتیٰ کہ ہمارے نوجوان جو اس پروگرام میںشرکت کر رہے ہیں وہ بھی ہندی الفاظ کا استعمال کر جاتے ہیں اور یہی اس پروگرام کا مقصد ہے جو پورا ہو رہا ہے لیکن ہم اس کو انٹرٹینمنٹ سمجھ کر ہضم کر رہے ہیں لیکن اس کے اثرات پاکستانی ناظرین اور شرکاءپروگرام پر تباہ کن مرتب ہوں گے۔ پروگرام کے آخر میں کیا ہو گا۔ جیت ہو گی تو صرف بھارت کی، فتح ہو گی تو فقط اس پروگرام کے تدوین اور مرتب کنندگان کی۔ ہمارے ہاتھ کیا آئے گا۔ انٹرٹینمنٹ کے نام پر ذہنوں میں تبدیلی، ہندی زبان، کلچر اور ہندو دھرم کی اشاعت بذریعہ سرشیتر، سُر سنگیت؟
اگر ہمارا حافظہ کمزور نہیں اور ماضی کی باتیں ہمیں یاد ہیں تو ہم کس طرح ہندو پر اعتماد اور یقین کر لیں جس نے ہمیشہ فریب کی بات کی ہے اور کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ مسئلہ کشمیر اور پانی جیسے بنیادی تنازعات پر سرے سے کسی مثبت بات چیت کیلئے تیار نہیں۔محب وطن لوگ پاکستان کی جانب سے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دئیے جانے، بھارت کے ساتھ دوستی، تجارت، امن کی آشا کو ایک ڈھونگ سمجھتے ہیں جس کا مقصد صرف اور صرف اس خطہ میں بھارت کی بالادستی اور معیشت کو فروغ دے کر اپنے کلچر کو ہم پر مسلط کرنا ہے۔
کیا ان عوامل کی موجودگی میں ہماری سالمیت کو بھارت کے ہاتھوں محفوظ ہونے کی یقین دہانی کرائی جا سکتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ۔ اگر کافی ہے تو پھر کہیں امن کی آشا ہماری آزادی اور سالمیت کی قیمت پر تو نہیں۔ ذرا سوچیں تو؟
اسرائیلی جہاز پر اگر کوئی پاکستانی موجود ہے تو اسے برادرانہ ...
Apr 15, 2024 | 14:30