فرانسیسی صدر کا گستاخانہ بیان
ربیع الاول نبی اکرم ؐکی آمد کا مہینہ ہے دنیا بھرمیں نبی اکرمؐ پر درود سلام کی محفل منعقد کی جاتی ہیں۔ مسلمان اللہ کے نبی سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ابھی چند دن پہلے قادیانی مکتب کی جانب سے ختم نبوت پر ہرزہ سرائی کی گئی پاکستان میں علماء متحرک ہوئے اور قادیانی کے خلاف سراپا احتجاج کیا۔ قادیانیوں نے برطانوی اور امریکی ایوانوں میں پاکستان کی اس سالمیت اور ختم نبوت کے خلاف موثر انداز میں اپنے قدم جمارکھے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں ممبران کی ایک بڑی تعداد نے ان کے حق میں قراردادیں بھی پاس کی ہیں۔ عالم اسلام کے لئے محرم تا ربیع الاول کے ماہ اسلامی نقطہ انداز سے مقدس ہوتے ہیں۔ بلخصوص ان ایام میں مختلف اقسام کے فتنوں کو ہوا دینے کی ایک عالمی سازش نئے سرے سے سر اْٹھا رہی ہے۔ مختلف فورمز اور بالخصو ص پارلیمنٹرین نے قادیانیوں کی اس سازش کے خلاف اسمبلیز میں قراردیں منظور کی ہیں۔ ختم نبوت کے حوالے سے نکلنے والے جلسے جلسوں کو فتنہ سازوں نے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش بھی کی جو اللہ کے فضل کرم سے کامیاب نہ ہوسکے۔ چند دن پہلے فرانس نے اس مقدس مہینے میں نبی اکرمؐ کی شان میں ازحد گستاخی کرتے ہوئے ایک بار پھر گستاخانہ خاکے نہ صرف شائع کئے ہیں بلکہ فرانس کے صدر نے اپنی اس حرکت پر نادم ہونے کے بجائے اس امر کے حق میں گستاخانہ بیان بھی جاری کیا ہے۔ جس میں عالم اسلام کو مضطرب کر دیا ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانول میکخواں کو اس وقت پوری دنیا سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان، ترکی کے صدر اردگان نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے جبکہ فرانسیسی صدر نے اپنے نا پسندیدہ عمل کو ریاستی سیکولرازم کہا ہے اور ریاستی آزادی رائے قرار دیا ہے۔ طیب اردگان نے اس بیان کے بعد فرانس کے صدر کو ذہنی بیمار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ "انہیں دماغی علاج کی ضرورت ہے۔ فرانسیسی صدر کا یہ بیان کہ " اسلام پوری دنیا میں بحران کا مذہب بن گیا ہے" انتہائی قابل مذمت ہے فرانسیسی صدر کے اس بیان سے قبل ایک فرانسیسی استاد سمیوئیل نے اپنے طالب علموں کو نبی اکرم ؐ کی شان میں گستاخی والے خاکے دکھائے جس کے بعد اس بد بخت کو قتل کر دیا گیا۔ سمیوئل کے قتل نے فرانس کی گورنمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔ مقتول کے حق اور خلاف ریلیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جس میں کئی افراد موت کے گھاٹ اْتار دئیے گئے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سیموئیل تاریخ اور جغرافیہ کے استاد تھے۔ باوجود اس کے وہ اپنے طالب علموں کو یہ گستاخانہ خاکے دکھایا کرتے تھے۔ کیا کسی تاریخ اور جغرافیہ کے استاد کا یہ عمل قابل قبول ہوسکتا ہے یہ تو سیدھا سیدھا اسلامی فوبیا کا شکار ایک ذہین کی اختراع تھی جس کا مقصد توہین کے سوائ کچھ بھی نہ تھا جب ایک استاد اس عمل تک آتا ہے تو معاشرے میں بے عدلی پیدا ہوتی ہے جس کا ا نجام اس استاد کے قتل کی صورت میں رونما ہوا۔ یہ استاد جو ایک لبرل معاشرے اور حقوق کی دنیا کے علمبردار معاشرے کا فرد تھا یہ سب عمل سر انجام دیتے ہوئے یہ بھول گیا ہوگا کہ مسلم عقائد مطابق پیغمبر اسلام کے خاکے اور عکس بنانا اسلامی عقائد کے خلاف ہے اور قابل مذمت ہے چہ جا ئیکہ یہ خاکے توہین آمیز بھی ہوں اس سے قبل 2015 میں جرید ے چارلی ابیڈو میں یہ خاکے شائع ہوئے تھے ۔ فرانس جیسے لبرل حقوق کے علمبردار معاشرے میں مسلمانوں کو نسل پرستانہ رویے کا سامنا ہے اور اس کی وجہ ان کا عقیدہ مذہب ہے۔ ساری دنیا میں حقوق کی بات کرنے والے مہذب معاشرے فرانس کے صدر کی اس ہرزہ سرائی پر خاموش کیوں ہے۔ اگر نبی اکرم ؐ کی حیات طیبہ کے روشن پہلوئوں و سیرت کا مطالعہ کریں تو یقیناً وہ اپنا نظریہ تبدل کر لیں گئے دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز اتباع سنت میں مضمر ہے۔ سیرت کا جو بھی گوشہ سامنے رکھیں اور مطالعہ کریں تو سرور کائنات کی زندگی کا ہر پہلو روشن دکھائی دیتا ہے۔ مغربی دنیا کے مشہور سکالر مائیکل ہارٹ نے جب دنیا کے 100 عظیم انسانوں پر کتاب لکھی عیسائی ہونے کے باوجود اعلیٰ انسانی اقتدار کی بدولت پہلا ذکر سرور کائناتؐ کا کیا۔ بین المذاہب ہم آہنگی اس دنیاکو قائم رکھ سکتی ہے۔ اہل دانش و اہل علم ان کو سنجیدگی سے اس بارے میں سوچنا ہو گا۔