پاکستان کی موجودہ افراتفری کے محرکات
دو ماہ قبل یعنی اگست تک پاکستان میں صورتحال ہر لحاظ سے اطمینان بخش تھی سیاسی محاذ مکمل طور پر خاموش تھا جبکہ امن وامان کی فضاء بھی معمول کے مطابق تھی لیکن ہماری قیادت کے بعض بیانات نے پاکستان دشمن قوتوں کو اکٹھا ہونے اور مل جل کر پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کاایک موقع دے دیا ہے جس کے نتیجے میں آج پاکستان‘ اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر شدید خطرات سے دوچار ہے ریاست پاکستان کی پالیسی کے مطابق سب سے پہلے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کے حوالے سے ایک اہم پیغام دیا جس میں کہا گیا کہ کشمیر کے حوالے سے او آئی سی کا اجلاس نہ بلانا باعث تشویش ہے سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ او آئی سی کے چیئرمین کی حیثیت سے مسلمانوں کی نمائندہ اس تنظیم کا فوری طور پر اجلاس بلائے کیونکہ کشمیریوں کے خلاف بھارت کی ریاستی دہشت گردی بڑھ رہی ہے جو پہلے ہی کئی ماہ سے عملی طور پر بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں قید کی سی زندگی گزار رہے ہیں اگر سعودی عرب نے اپنی ذمہ داری ادا نہ کی تو وہ پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دے گا ان حالات میں پاکستان دنیا بھر کے مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے کسی اور فورم پر جاکر یہ اجلاس بلاسکتا ہے ۔ظاہر ہے ہمیشہ فرمانبرداری کے جملے سننے والی سعودی قیادت نے پاکستان کے اس موقف کو سخت نا پسند کیا جس کے نتیجے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک عرصے سے موجود خوشگوار تعلقات میں تلخیاں بڑھ گئیں وہ دن اور آج کا دن‘ اپنے جذباتی رویے کے لیے عالمی سطح پر جانے جانے والے سعودی ولی عہد نے پاکستان اور ہماری عسکری و سیاسی قیادت کے خلاف ہر وہ قدم اٹھایا ہے جو اس کے بس میں تھا اور اسی راستے پر چلتے چلتے آج کا سعودی عرب‘ پاکستان کی مخالفت میںامریکہ ،اسرائیل اور بھارت کے ساتھ کھڑا ہوا نظر آتا ہے ۔ اسی طرح ٹی وی اینکر کامران خان کے ساتھ ایک انٹرویو کے دورا ن جب عمران خان نے واضح طور پر یہ کہا کہ میں کسی بھی صورت میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا کیونکہ اگر میں نے ایسا کیا تو پھر میں اللہ تعالیٰ کو کس طرح اپنا منہ دکھائوں گا اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر نے کے حوالے سے مسئلہ کشمیر یا کسی اور حوالے کو جواز بنانے کی بجائے عمران خان نے اسے اپنے مذہب اور اعتقاد کے ساتھ جوڑ دیا جس پر اسرائیل کا مایوس ہونا اور اشتعال میں آنا قابل فہم ہے پاکستانی وزیر اعظم نے یہ بات بھی کھل کر کی کہ پاکستان نے اپنے مستقبل کے حوالے سے چین کا انتخاب کر لیا ہے اور اب پاکستان سی پیک سے کسی بھی صورت پیچھے نہیں ہٹے گا اور آپ سب جانتے ہیں کہ چین اب امریکہ کے لیے ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے اور یہ بات امریکہ سے کیسے ہضم ہو سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج سعودی عرب ،اسرائیل اور امریکہ پاکستان کے ساتھ دشمنی پر اتر آئے ہیں جسے مزید بڑھاوا دینے کے لیے بھارت تو کئی سالوں سے اس کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا ۔ چنانچہ آج یہ صورتحال ہے کہ پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی عروج پر ہے سیاسی لوگ ایک شعوری یا لا شعوری پالیسی کے تحت فوج اور سکیورٹی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں آزاد بلوچستان کی بات ہو رہی ہے پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کے مطابق دنیا کے تین ممالک نے تین ارب ڈالرز کا خطیر سرمایہ پاکستان میں جھونک دیا ہے تا کہ ملک میں افرا تفری پیدا کی جاسکے بھارت نے اپنے سلیپر سیلز کو فعال کر دیا ہے بھارت ہی نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کو آپس میں متحد کر کے پاکستان کے خلاف پراکسیز کا ٹاسک دے دیا ہے جبکہ بی ایل اے اور داعش کو بھی امریکہ ،اسرائیل اور عرب ممالک پاکستان کے خلاف متحرک کرچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پہلے کراچی ،پھر کوئٹہ اور اب پشاور میں بم دھماکوں کے ذریعے پاکستانی شہریوں کا خون بہایا جا رہا ہے ،حالات سنگین سے سنگین تر ہو رہے ہیں ملک کی سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے عوام کو فوج کے خلاف اکسا کر سکیورٹی اداروں کا اعتماد ختم کیا جارہا ہے رہی سہی کسر گزشتہ روز بھارت اور امریکہ کے درمیان ہو نے والے بیکا معاہدہ نے پوری کر دی ہے جس کی روسے اب بھارت پر حملہ امریکہ کے خلاف جارحیت تصور ہوگا اسی تناظر میںہی امریکی وزیر خارجہ نے گزشتہ روزبھارت کی سر زمین پر کھڑے ہوکر پاکستان سے پٹھان کوٹ اور بمبئی بم دھماکوں کے ملزمان کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے اس کے علاوہ پاکستان سے کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی نہ کر نے کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اس قیامت خیز صورتحال کا احساس نہ تو پوری پاکستانی قوم کو ہے، نہ سیاسی جماعتوںکو اور نہ ہی اسٹیبلیشمنٹ کواس کا صحیح اندازہ ہو رہا ہے ان مایوس کن حالات میں عام پاکستانی صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی نصرت اور رحمت سے ہی اپنے پیارے ملک کے دفاع اور سلامتی کی دعا اور توقع کر سکتا ہے ۔