مسلمانوں پر کڑا وقت
موجودہ حالات میں ایک طرف ساری مسلمان دنیا پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ جاری ہے تو دوسری طرف حکومتِ فرانس کی جانب سے وہاں کے مسلمانوں کے لئے عرصہ حیات مسلسل تنگ کیا جارہا ہے۔ اگر فرانس میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کا جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں کی کل تعداد تقریباً 5,800,000 ( اٹھاون لاکھ ) کے قریب ہے جو کہ فرانس کی کل آبادی کا 8.8 فیصد ہے ، یورپ میں مسلمانوں کی کل آبادی تقریباً 25,000,000 ( اڑھائی کروڑ ) ہے ، جبکہ فرانس میں ہی سب سے زیادہ تعداد میں مسلمان آباد ہیں اسکے بعد جرمنی میں تقریباً 5,000,000 ( پچاس لاکھ ) ، برطانیہ میں 4,200,000 ( بیالیس لاکھ ) ، اٹلی میں 2,800,000 ( اٹھائیس لاکھ ) ، نیدر لینڈ میں 1,200,000 ( بارہ لاکھ ) اور اسپین میں بھی مسلمانوں کی تعداد تقریباً 1,200,000 ( بارہ لاکھ ) کے قریب قریب ہے۔ اس تعداد کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یورپ کے صرف ان پانچ ممالک میں ہی تقریباً 20,000,000 ( دو کروڑ ) مسلمان آباد ہیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ لمحہء فکریہ ہے کہ بھارت کے بعد اب یورپ میں بھی مسلم مخالف اقدامات مسلسل کیے جا رہے ہیں جو کہ سراسر مذہبی آزادی کے خلاف ہے ، یورپ جو کہ خود کو ترقی یافتہ اور روشن خیال یعنی لبرل گردانتا ہے مگر تنگ نظری کی انتہا ہے کہ اتنی بڑی مسلمانوں کی آبادی کے بنیادی حقوق سلب کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ فرانس جو کہ مسلمانوں کے لیے ہمیشہ سے پسندیدہ ملک رہا ہے مگر اب مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ مذہبی آزادی کے بغیر کوئی بھی ملک پسندیدہ نہیں ہو سکتا۔ عین ممکن ہے کہ آہستہ آہستہ فرانس سے شروع ہونے والی نفرت کی آگ سارے یورپ میں پھیل جائے ، فرانس میں پہلے پہلے مسلمان خواتین کے نقاب پر پابندی لگائی گئی اسکے بعد مسلمانوں کو مساجد میں اذان پر پابندی اور بالآخر مساجد پر ہی پابندی لگانے کے قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ یہ ساری پابندیاں تو مسلمان ہمیشہ سے ہی برداشت کرتے آئے ہیں چاہے بھارت ہو ، اسرائیل ہو یا پھر برما ہو مگر اب بات اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ نعوذباللہ حضور پاکﷺ کی شان میں گستاخی باقاعدہ سرکاری طور پر کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس سے پہلے بھی ناروے اور ڈنمارک میں حضور پاکﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی مگر اسکو ایک انفرادی فعل قرار دے کر مسلمانوں کو تسلی دے دی گئی مگر اب کی بار تو بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔جب دوسرے مذاہب کی جانب سے مسلمانوں کو اس قدر انتہا پسندی کا سامنا کرنا پڑے گا، بدلے میں مسلمانوں کے دلوں میں بھی نفرت جنم لے گی اور پھر مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد جیسے القابات دیئے جاتے ہیں جبکہ اگر کوئی غیر مسلم کسی مسجد پر حملہ کر کے درجنوں مسلمان نمازی بھی شہید کر دیتا ہے تو مجرم کو ذہنی مریض قرار دے کر انفرادی فعل قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ امریکہ پچھلے بیس سال سے نہ صرف افغانستان میں مسلمان کا قتلِ عام کر رہا ہے بلکہ دوسرے کئی اسلامی ممالک بھی امریکی عتاب کا شکار ہیں دوسرے لفظوں میں کسی بھی ایک مسلمان کے انفرادی فعل کو مذہب اسلام سے جوڑ کر سارے مذہب کو ہی غلط قرار دینا غیر مسلموں کا وطیرہ بن چکا ہے۔حال ہی میں فرانس کی جانب سے حضور پاکﷺ کی شان میں گستاخی کے ناپاک منصوبے کے خلاف ساری مسلم دنیا سراپاء احتجاج ہے ، کئی مسلمان ملک فرانس کی چیزوں کا بائیکاٹ بھی کر رہے ہیں مگر شاید صرف یہ بائیکاٹ کافی نہ ہو گا۔ آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے اس لیے سوشل میڈیا مالکان کو بھی اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ نفرت اور انتہا پسندی کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا بھی ہے ، یوٹیوب ، ٹوئیٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا نیٹ ورکس کو اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تمام مذاہب کو برابری کی بنیاد پر تحفظ فراہم کیا جا سکے ، پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے فیس بک کے مالک مارک زکربرگ کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جس طرح ہولوکاسٹ پر پابندی عائد ہے بالکل اسی طرح مذہب اسلام اور ہمارے پیارے نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخی پر مبنی پوسٹس پر بھی فلٹر لگانا چاہئیے تاکہ دنیا کے اربوں مسلمانوں کی دل آزاری نہ ہو سکے۔ اس سے پہلے بھی عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں برملا کہا تھا کہ جب جب ہمارے نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخی ہوتی ہے تو مسلمانوں کے دل دْکھتے ہیں کیونکہ ہمارے مذہب میں جو مقام نبی پاک ﷺکا ہے وہ کسی اور کا نہیں۔ اسلامو فوبیا کے حوالے سے بھی عمران خان نے غیر مسلم دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ اسی وجہ سے مسلمان انتہائی اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلم ممالک چاہے وہ کسی بھی مسلک سے ہوں اکھٹے ہو کر ایک پلیٹ فارم پر غیر مسلم دنیا کو ایک پیغام دیں کہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری کو نبھایا جائے تاکہ تمام مذاہب کے لوگ رواداری اور برداشت کے ساتھ دنیا میں کہیں بھی اپنے مذہب اور عقیدے کے حساب سے زندگی گزار سکیں وگرنہ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کے سلوک روا رکھنے سے سارے دنیا تباہی کا شکار ہو سکتی ہے۔