مخلوق پر تو ظلم تھا ہی ، خالق کی بندگی کے لیے بھی خلوص ، اخلاص اور تقویٰ نام کو بھی نہیں تھا ، توحید الٰہی پر جمی شرک کی تہیں اتنی دبیز تھیں کہ دین حنیف کی پہچان دشوار ہی نہیں ناممکن ہو کر رہ گئی تھی۔ سیدنا ابراہیمؑ و سیدنا اسمعیلؑ کے ہاتھوں سے بنایا خانہ خدا بتوں سے اٹا ہوا تھا ، سیدنا عیسیٰ ؑکی پیروی کے دعویداروں نے تثلیث عقیدہ بنا ڈالا، کسی نے سیدنا عزیرؑ کو اِبن اللہ (نعوذ باللہ) کہا۔ تورات، زبور اور انجیل بس نام ہی کی الہامی کتب رہ گئی تھیں۔ ’’دعائے خلیلؑ‘‘ تو صدیوں پہلے بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت پا چکی تھی ، بس اسکے ثمرات سے کائنات کو مستفید اور مستفیض کرنے کا وقت آ پہنچا تھا۔ ’’نویدمسیحا ؑ‘‘ بھی مخلوق خدا کو پیغام مسرت پہنچانے کو تھی۔ پھر رحمن و رحیم کو اولاد آدمؑ پر رحم آ گیا۔ پاک، پاکیزہ ، طاہر اورمطہر اصلاب سے منتقل ہونیوالی پاکیزہ ترین ، أطیب، اسعد و افضل ہستی کی ولادت باسعادت کا لمحہ آ گیا۔ ام المومنین سیدہ ، طیبہ ، طاہرہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آقا کریمؐ نے فرمایا حضرت جبریلؑ کہنے لگے ’’میں نے مشرق و مغرب کو دیکھا لیکن روئے زمین پر محمدؐ سے افضل کسی کو نہیں پایا، کسی باپ کی اولاد کو ہاشم کی اولاد سے بہتر نہیں دیکھا۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے ، آقا کریمؐ نے فرمایا ’’جبریل میرے پاس آئے ، کہنے لگے ’’اے محمدؐ! مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ، میں نے روئے زمین پر مشرق و مغرب کا چکر لگایا ، میدانوں ، پہاڑوں میں گھوما ، میں نے ’’مضر‘‘ سے بہتر کسی کو نہ پایا پھر مجھے حکم ملا تو میں نے قبیلہ مضر کا چکر لگایا تو کنانہ سے بہتر کوئی نہ ملا ، پھر کنانہ کو کھنگالا تو قریش سے بہتر کوئی نہ دیکھا ، پھر قریش میں گھوما پھرا تو بنوہاشم سے بہتر کوئی نہ ملا، پھر بنو ہاشم سے انتخاب کا مرحلہ آیا تو ’’محمدؐ‘‘ سے بہتر کوئی نظر نہ آیا۔‘‘
محسن انسانیت نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے روئے زمیںپر مجھے صلب آدمؑ میںاتارا، پھر حضرت نوحؑ کی صلب میں رکھا پھر صلب ابراہیمؑ میں منتقل کیا ، پھر رب ذوالجلال مجھے معزز اصلاب سے پاکیزہ ارحام میںمنتقل کرتا رہا پھر مجھے میرے پاکیزہ والدین سے پیدا کیا۔‘‘ طبقات ابن سعدمیں ہے کہ آقا کریمؐ کی پانچ سو مائوں (دادیوں ، نانیوں) کے احوال لکھے گئے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں بھی ہر قسم کی خامیوں سے پاک رہی تھیں۔ مصر کے شاعر احمدشوقی نے آقا کریمؐ کی ولادت باسعادت کا تذکرہ یوںکیا ہے کہ ’’پیکرِ ہدایت کی ولادت ہوئی تو کائنات نورِ مجسم بن گئی ، زمانہ مسکرا اٹھا ، حمدو ثناء کرنے لگا ، روح امین اور دیگر فرشتے دین و دنیا کو آمدمصطفیؐ کی بشارتیں دے رہے تھے، آپؐ کی ولادت باسعادت ہوئی تو عرش چمک رہا تھا ، خطیرۃ القدس (جنت) ، مقام منتہیٰ اور سدرۃ المنتہیٰ بھی نازاںتھے ، حدیقتہ الفرقان (جنت) کی سرسبز و شاداب کیاریاں ترجمان حق کے وجود سے مسکرا رہی اور مہک رہی تھیں ، وحی مسلسل نازل ہو رہی تھی ، لوح محفوظ اورمنفرداشیاء وجود میں لانے والاقلم خوشنما تھا ، رسولوں کے اسماء گرامی لوح محفوظ میںایک ورق پر ترتیب دئیے گئے تو محمد ؐ کا اسم گرامی سب سے اوپر جلی حروف میںتھا ، رب ذوالجلال کا پاک نام اس لوح کے انوکھے حروف میں الف ہے اور نبی کریمؐ کا اسم گرامی وہاں (بائ) ہے۔‘‘ احمدشوقی کے اسی مصرع کا ترجمہ ’’بعدازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ ہے۔ اب ایسی اعلیٰ ، ارفع شخصیت سے محبت و عشق کا تقاضا ہے کہ اطاعت کا دامن مضبوطی سے تھاما جائے ، ایسا نہیںہونا چاہئے کہ دعوے تو عشق مصطفیؐ کے کیے جائیں اور قانون و ضابطے غیروںکے مانے جائیں۔ ہم دعوے تو عشق مصطفیؐ کے کرتے ہیں لیکن اپنے معاملات اور معمولات کو سیرت طیبہ کے مطابق ڈھالنے کو تیار نہیں ہیں۔ دنیا کے پیمانے تو مختلف تھے ، دین کو بھی اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ دنیا میںامن ، ترقی اور خوشحالی کے ضامن پیغام مصطفیؐ کو اپنانے کے روادار نہیں ، منبر و محراب کا تقدس نہیں، باہم دست و گریباں ہیں، ملکوں ، ملکوں تو اختلافات تھے ، گھر اور خاندان بھی مامون و محفوظ نہیں رہے۔ اسلام دشمنوں نے اسی کمزوری سے فائدہ اٹھایا کبھی اسلام کومطعون کیا، کبھی نظام اسلام پر دشنام طرازی کی۔ ہم انکے سفیروں کو احتجاجی مراسلے تھما رہے ہیں دنیا بھر کی اسلامی مملکتوں کے ُ’’شاہوں‘‘ میں اتنی بھی اخلاقی جرأت نہیںکہ ایسے بدطینت ملک کے سفیر کو ہی ملک بدر کر دیں، ایسے بدکرداروں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں۔ قرآن بھی عشق و محبت مصطفیؐ کا ایک اصول اور ضابطہ بتاتا ہے کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ مجھے اپنی ذات ، ماںباپ، اولاد اور پوری دنیا سے بڑھ کر محبوب نہ مان لے۔‘‘ کیونکہ…؎
رخ مصطفیؐ ہے وہ آئینہ کہ ایسا دوسرا آئینہ
نہ کسی کی بزم خیال میں ، نہ دکان آئینہ ساز میں
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024