بدھ‘ 1441ھ ‘ 30 ؍ اکتوبر 2019 ء
زیر سمندر گیس سے متعلق کسی نے وزیر اعظم کو بڑھا چڑھا کر معلومات دیں۔ ایم ڈی پٹرولیم
اگر ایسا ہے تو وزیر اعظم کو اندھیرے میں رکھنے والے اس رخ روشن کا دیدار عوام کو بھی کرایا جائے جو وزیر اعظم کو باتوں باتوں میں زیر دام لایا۔ یہ کوئی واقعی بڑا قصیدہ گویا داستان طراز ہو گا جس کی چرب زبانی نے یہ دن دکھایا اور ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ زیر سمندر تیل کی تلاش کوئی عجوبہ روزگار نہیں۔ کئی ممالک میں یہ کام نہایت مہارت سے ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں اس میں ماہر کسی کمپنی سے پہلے رپورٹ کیوں نہ لی گئی۔ اتنے مہنگے کام میں ہاتھ تب ڈالا جاتا ہے جب 100 فیصد نہ سہی 90 فیصد ہی کامیابی کا امکان ہو۔ اب ایم ڈی پٹرولیم کہتے ہیں اس قسم کے منصوبے پر شک نہ کیا جائے تو ٹھیک ہے شک نہیں کرتے مگر اس لاف زنی کرنے والے کو تو اس کی سزا دی جائے۔ وہ کون ہے عوام کو بھی بتایا جائے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آخری مرحلے میں ڈرلنگ بند کی گئی۔ اگر ایسا ہے تو یہ کس کے کہنے پر ہوا۔ کیا یہ سچ ہے کہ پاکستان میں تیل نکالنے سے اردگرد کے پڑوسی ممالک کے تیل کی پیداوار میں فرق پڑتا۔ اس لیے ان کی خوشنودی کے لیے ایسا کیا جاتا آ رہا ہے۔ وجہ جو بھی ہو ملک وہ قوم کا سرمایہ چنیوٹ میں تانبے اور سمندر میں تیل کے ذخائر کے نام پر برباد کرنے والوں کو کسی صورت معاف نہ کیا جائے۔ یہ کسی کی ذات کا نہیں ملک و قوم کا نقصان ہے۔ پاکستان میں موجود معدنیات پر اس ملک کے عوام کا حق ہے۔ اگر کہیں تیل گیس تانبا اور سونا مل سکتا ہے اسے ضرور نکالا جائے تاکہ ملکی خوشحالی اور ترقی کی راہیں ہموار ہوں۔ اس معاملے میں محض ’’تکے‘‘ سے کام نہیں لیا جا سکتا۔
٭٭٭٭٭
بزنس پلان تیار ، کارپوریٹ سیکٹر کو گورنر ہائوس میں تقریبات کی اجازت
چلیئے جناب حکومت نے گورنر ہائوس کو بھی کمائو پوت بنا ہی لیا۔ اب کارپوریٹ سیکٹر والے مناسب معاوضہ دے کر یہاں تقریبات منعقد کر سکیں گے۔ ہو سکتا ہے کوئی نجی شخصیت بھی بھاری معاوضے کے تحت گورنر ہائوس میں عقیقہ، ختنے، شادی بیاہ یا کوئی اور تقریب کرنے کی اجازت لے لے۔ معاوضہ مناسب ہو تو حرج ہی کیا ہے۔ اصل بات تو آمدنی ہے۔ سوا گر وہ ہو رہی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے۔ دروغ برگرن راوی چند ماہ قبل وزیر اعظم ہائوس اسلام آباد میں بھی ایک شادی کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ اب معلوم نہیں یہ اجازت ازروئے عنایت دی گئی تھی یا حکماًدینی پڑی۔ اب اس طرح گورنر ہائوسز بھی ماہانہ معقول رقم خزانے میں جمع کرا کے سرخرو ہو سکتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ ان وسیع و عریض عمارتوں میں یونیورسٹیاں بنیں گی۔ وہ تو نہ بن سکیں البتہ انہیں کمیونٹی ہال کا درجہ ضرور مل گیا جہاں عام تقریبات اور سیمینار کی اجازت معقول معاوضہ پر مل سکتی ہے۔ جن میں گورنر حضرات کو بھی بطور مہمان خصوصی بلا کر ان تقریب کی رونق دوبالا کی جا سکتی ہے۔ اس طرح اعلیٰ حکام کی عام تقریبات میں شرکت سے عوام پر اچھا اثر پڑے گا اور گورنر حضرات کی مصروفیات میں بھی صحت مند اضافہ ہو گا۔ انہیں بھی ان وسیع عمارتوں میں پھیلی تنہائی سے نجات مل سکے گی۔ ویسے بھی دو روز گورنر ہائوس کے دروازے عوام کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد مارچ میں طعام کا وسیع اور منظم اہتمام
مولانا کے مارچ کے انتظامات کے حوالے سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں۔ مگر میڈیا پر جس طرح اس مارچ کے شرکاء کے لیے خوراک کی فراہمی کا انتظام دکھایا جارہا ہے وہ قابل ذکر ہے۔ پی ٹی آئی کے دھرنے میں کھانے کے ساتھ موسیقی پر بھی زور تھا۔ مولانا کے مارچ میں زیادہ زور غذا پر ہے اس لیے اس کا وافر انتظام کیا گیا ہے۔ مخالفین کو شاید علم نہیں مولانا کے حلقہ ارادت میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو رائے ونڈ کے وسیع سالانہ اجتماع میں لاکھوں افراد کے لیے لنگر کا بندوبست کرتے ہیں ۔ اس لیے کسی کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ سچ کہیں تو جس منظم طریقے سے مارچ کے شرکاء میں کھانا تقسیم ہوتا ہے۔ اسے دیکھ کر بہت سے لوگوں کا جی چاہتا ہے کہ وہ بھی مارچ میں شریک ہو کر اس لنگر سے مستفید ہوں۔ آج کل ویسے بھی مہنگائی نے روزی روٹی کا مسئلہ پیدا کیا ہوا ہے جس کے بعد امید ہے فارغ اور ویہلے بے شمار نوجوان بھی اس مارچ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ کراچی، سکھر، ملتان، لاہور میں کہیں سے بھی اس حوالے سے کوئی شکایت نہیں ملی۔ لاہور میں بھی شرکا نے مارچ کے تمام انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اب اگر یہ مارچ اسلام آباد میں کچھ دن قیام بھی کرتا ہے تو شرکاء کے لیے کھانے پینے کا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ اس کا مناسب بندوبست کر لیا گیا ہے۔ باقی تمام سیاسی جماعتیں اور مولانا کے معتقدین نے اس سلسلے میں ہاتھ کھلا رکھا ہے۔ اس لیے کامل اطمینان سے بنا کسی افراتفری کے یہ مارچ کھاتے پیتے مکمل ہوتا د کھائی دے رہا ہے۔ مولانا رونق میلہ لگانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ورنہ عام طور پر ایسے خشک مارچ عوام کی توجہ حاصل نہیں کر پاتے۔
٭٭٭٭٭
امریکہ نے داعش کے سربراہ کی نعش سمندر برد کر دی
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
داعش کے سربراہ ابوبکر بغدادی کا انجام بھی ان کے پیش رو اسامہ بن لادن جیسا ہوا۔ امریکیوں نے اسامہ کو بھی زمین پر مار کر اس کی نعش بھی سمندر میں لے جا کر سپرد آب کر دی تھی کہ اگر اسے کہیں دفنایا گیا تو وہ جگہ آئندہ کسی نئے گروپ کے لیے مقدس نہ قرار پائے۔ اسی طرح اب ابوبکر بغدادی کے ساتھ بھی کیا گیا۔ انہیں بھی زمین پر مارا گیا اور نعش کہیں دفن کرنے کی بجائے سمندر کے سپرد کر دیا گیا۔ بقول شخصے ’’یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا‘‘
داعش کی د عوت اپنی جگہ مگر جس طرح اس نے مخالفین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا۔ انہیں زندہ جلایا خنجر سے سر کاٹے ، بم باندھ کر اڑایا، ٹینکوں تلے کچلا ان مظالم کی ویڈیوز جاری کیں اس سے داعش کی مقبولیت کی بجائے مخالفت میں زیادہ اضافہ ہوا۔ اچھے کام کے لیے بھی اگر غلط راستہ اختیار کیا جائے تو کامیابی کوسوں دور چلی جاتی ہے۔ ابوبکر بغدادی کی موت کے بعد جو تبصرے سامنے آئے ہیں ان سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ ان کے مخالف زیادہ خوش ہیں۔ زندہ جلائے جانے والے ایک شخص کے والد کا یہ تبصرہ ہی کافی ہے جس نے کہا ’’آج میرے سینے میں ٹھنڈ پڑ گئی ہے۔‘‘ داعش اگر شدت پسندی کی بجائے میانہ روی سے کام لیتی۔ قدیم تہذیبی نشانیاں، مقابر، مساجد تک کو تباہ کرنے سے باز رہتی تو بہتر ہوتا۔ مگر انہوں نے آثار قدیمہ سے لے کر مذہبی مقامات تک کو تاراج کیا جس کی وجہ سے خود مسلم دنیا میں بھی اس کی مخالفت کا زور رہا۔