الوداع ’’اجمال‘‘ الوداع ’’سانجھاں‘‘
عہد حاضر میں جس تیزی سے معاشرے کے رویے تغیر پذیر ہیں، اس تیزی سے اردو اور پنجابی ادب بھی اپنے قاری سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ مطالعے کا شوق روزبروز ختم ہوتا جا رہا ہے۔ آج کا نوجوان کتاب سے بہت دور ہو گیا ہے۔ پاکستان کے موجودہ پُرآشوب حالات کی سفاکی نے جہاں انسانی اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، وہیں ادب کی دنیا کوبھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ شہر کے بڑے بڑے کتاب گھر ادبی جرائد رکھنے سے انکاری ہیں۔ ان حالات میں کسی ادبی جریدے کا اجرا یا احیا ہو بھی رہا ہے تواسے قاری تک پہنچانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔
پھر بھی کچھ اہل جنوں تمام رکاوٹوں کے باوجود یہ کاردشوار جاری رکھے ہوئے تھے لیکن وہ بھی کہاں تک گھر پھونک کر تماشا دیکھتے۔ ایک ایک کر کے معاشرے کی بے اعتنائی سے تنگ آ کر اس گناہ بے لذت سے تائب ہو رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک جو ادبی جریدے ہر مہینے باقاعدگی سے شائع ہو رہے تھے وہ رفتہ رفتہ سہ ماہی، شش ماہی، سالانہ یا گاہے گاہے شائع ہونے لگے ہیں۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے یہ سلسلہ بھی معدوم ہو جاتا ہے۔ حال ہی میں دو ادبی جریدوں نے بند ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان میں ایک جریدہ ’’اجمال‘‘ ہے جو کراچی سے آٹھ برسوں سے شائع ہو رہا تھا اور دوسرا اردو، پنجابی جریدہ ’’سانجھاں‘‘ ہے جو 43 برسوں سے چھپ رہا تھا۔ ’’اجمال‘‘ روشن خیال اور ترقی پسند ادب کی تابندہ روایات کا ترجمان جریدہ تھا جو اپنی 14ویں اشاعت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ مارچ 2011ء کو مدیر ’’اجمال‘‘ فہیم اسلام انصاری نے بغیر کسی مالی منفعت اور گروہی مفادات کے بکھیروں سے دور رہتے ہوئے صرف اور صرف ادب کی خدمت کرنے کے جذبے سے اس کتابی سلسلے کا اجرا کیا تھا۔ آٹھ سال تک محنت اور لگن کے ساتھ یہ کام انجام دیا۔ اکتوبر میں شائع ہونیوالے اس 14ویں کتابی سلسلے میں فہیم اسلام انصاری نے ’’معذرت نامہ‘‘ شائع کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’جن ادبی مقاصد کے حصول کیلئے ہم نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا وہ فکری اور ادبی نتا ئج کے حصول میں ہم تقریباََ ناکام رہے۔ گزشتہ ایک سال سے ابلاغ عامہ کے ذرائع میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس انداز میں اس پر قدغنیں عائد کی جا رہی ہیں، ان کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’اجمال‘‘ کی اشاعت کو جاری رکھنا کارلاحاصل ہی رہے گا۔ ویسے بھی ملک میں گزشتہ ایک سال کے حالات و واقعات کے نتیجے میں جو تبدیلی آئی ہے، ہمارے خیال میں ہمیں اسے وقت دینا چاہیے۔ لہذٰا ’’اجمال‘‘ کے چودھویں سلسلے کے ساتھ ہی ہم اس کی اشاعت بند کر رہے ہیں‘‘ ’’اجمال‘‘ کی مجلس مشاورت میں عارف عباسی اور ظفر رباب شامل تھے۔ ’’سانجھاں‘‘ کا اجرا راقم الحروف نے مارچ 1976ء میں کیا۔ ابتدائی چند برس یہ صرف پنجابی زبان میں شائع ہوتا رہا۔ ازاں بعد اسے دو زبانوں (اردو۔پنجابی) میں شائع کیا جانے لگا۔ ’’سانجھاں‘‘ سانجھ سے ہے جس کے معنی ہیں۔ باہمی، مشترکہ، بھائی چارہ، مساوی، ناتا، تعلق وغیرہ۔ ابتدا میں ماہنامہ پھر سہ ماہی اور آخری دو سال ششماہی شائع ہوتا رہا۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اردو زبان کے بعض نامور لکھاریوں سے بھی پنجابی میں لکھوا کر تحریریں اپنے جریدے میں شائع کیں۔ چند نام یہ ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، کشور ناہید، یوسف کامران، ظہیر کاشمیری، امجد اسلام امجد، مستنصر حسین تارڑ، ڈاکٹر حسن رضوی، صادقین، اسلم کمال، خالد احمد، فہیم جوزی، یونس حسرت، اقبال راہی و دیگر بعض احباب نے مختلف زبانوں کے ادب کے پنجابی تراجم کر کے بھجوائے جو ابتدائی چند شماروں میں شائع کیے جاتے رہے۔ نامور مصور، خطاط اور شاعر صادقین سے راقم ہی نے پنجابی زبان میں لکھوایا۔ دوسرے شمارے (مئی 1976ئ) کے ٹائٹل پر صادقین کی پنجابی رباعی شائع کی گئی جس کی خطاطی بھی انہوں نے خود کی۔ رباعی یہ تھی:۔؎
اے ہاری دے، مزدور دے اوزار دے ناں
شاعر دے قلم، حُر دی اے تلوار دے ناں
لکھ دتی اے ایس پردے وچ ایہہ وی مورت
ایس شہر دی ہر سانولی مٹیار دے ناں
اکتوبر 2019ء کو شائع ہونیوالے شمار ے کو میں نے آخری شمارہ قرار دیا ہے۔ اس شمارے میں اعلان شائع کر دیا گیا ہے کہ ’’43 برسوں کے مختلف ادوار میں جن احباب نے سانجھ نبھائی، ان کا میں شکرگزار ہوں۔ میری ان سب سے دوستی کی سانجھ ہمیشہ رہے گی۔ یعنی جب تک سانس، تب تک سانجھ۔ مگر ’’سانجھاں‘‘ اب نہیں رہے گا۔ یہ آخری شمارہ ہے‘‘ آخری چند سال مجھے ممتاز ترقی پسند شاعر، ادیب اور دانشور ڈاکٹر خالد جاوید جان کا تعاون حاصل رہا۔ اکثر احباب نے برقی ڈاک (ای میل) کے ذریعے اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور ’’سانجھاں‘‘ کی اشاعت جاری رکھنے کا کہا۔ جو اب میرے لیے ناممکن ہے ۔ کراچی میں مقیم میرے شاعر دوست ظفر رباب نے منظوم تاثرات ای میل کیے۔ جو یہ ہیں:۔؎
ایک اک کر کے ہوئے بند
سب ادبی پرچے … اب یہ تہذیب نہیں
شعر و ادب کی حامل … سیپ، اوراق اور اجمال
آج سانجھاں بھی ہوا ہے … اسی صف میں شامل
٭…٭…٭