دو نومبر اسلام آباد بند کرنے بارے ان آوازوں پر غور کریں جس میں تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اس بار ایمپائر کی انگلی اٹھ چکی ہے اسلام آباد بند ہو گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ایسی ہر صورت کو ناکام بنا دینگے۔ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ کسی کا باپ جمہوریت کو ختم نہیں کر سکتا۔ مارشل لاء لگے گا، نہ تصادم ہو گا، خنجر اٹھے گا نہ تلوار۔ عدلیہ کا کہنا ہے کہ جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے۔ چودھری پرویز الہیٰ نے کپتان کی حمایت میں آواز بلند کی ہے۔ پیپلز پارٹی نے عندیہ دیا ہے کہ حکومت چار مطالبات پر بات کرے تو حکومت بچائیں گے۔ عمران خان ڈبل گیم کھیل رہے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل دو نومبر کو کشمیر کے مسئلے پر احتجاج کا اعلان کر چکی ہے۔ مذہبی رہنماؤں نے عسکری قیادت کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ جماعت اسلامی، شیخ رشید، طارق اسد ایڈووکیٹ اور تحریک انصاف نے عدلیہ سے رجوع کر لیا ہے اور عدلیہ نے اُنکی درخواستوں پر متعلقہ فریقوں کو نوٹس جاری کر دئے ہیں۔ ان آوازوں میں ماہرین، مبصرین، تجزیہ و تبصرہ نگاروں کی آوازیں اس طرح سنائی دیتی ہیں کہ کیا عمران خان اپنی فیصلہ کن اننگز کھیلنے جا رہے ہیں؟ تمام پارٹیاں ہوش مندی سے کام لیں، قومی یکجہتی کو یقینی بنائیں۔ لڑائی کا فیصلہ کہیں اور ہو گا۔ یہ پاکستان کی اشرافیہ کی لڑائی ہے۔ حکومت عدلیہ پر بھروسہ کر رہی ہے۔ عدلیہ کی بجائے پانامہ پیپرز پر لچک دکھائی جائے، حکومت کا پانامہ پر ٹال مٹول کا رویہ عوام کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔کیا وزیر اعظم نواز شریف معاملہ کو نمٹانے کیلئے خود پہل کرینگے؟ دو نومبر سے متعلق پیدا شدہ صورتحال کے مضمرات کے حوالے سے اندرونی اور بیرونی قوتیں اپنا اپنا یجنڈا سیٹ کر چکی ہیں۔ پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے بہت سی قوتیں نومبر کے ہونیوالے ایکشن بارے میدان میں کود چکی ہیں جن کے فیصلوں سے پاکستان کی سیاسی مستقبل کا تعین ہو گا۔ پاکستان کے عوام کی ہلکی سی دبی ہوئی چیخ بھی سنائی دے رہی ہے کہ ہم تو پھنس کر رہ گئے ہیں، ہماری تو زندگی ہی نہیں اور اسکی کوئی بات بھی نہیں کر رہا۔ عوام کی کوئی قدر ہی نہیں۔ لگتا ہے کسی کو ہماری ضرورت ہی نہیں۔ ہماری تو بس اتنی ضرورت ہے کہ ہم گھر، خاندان کی اخراجات پورے کرتے ہیں۔ مایوسی اور حوصلہ کی ملی جلی کیفیت ہے۔ آمدنی کم ضروریات زیادہ ہیں۔ اوپر سے سیاسی بحران و بے چینی اندیشے میں مبتلا ہم عوام خوف دباؤ اور منافقانہ سیاست پر اپنی ہی الجھن میں پھنسے ہوئے ہیں۔ شور اور چیخ میں ایک آواز پر سب ہی متوجہ ہو جاتے ہیں جب عسکری قیادت کی جانب سے یہ سنائی دیتا ہے کہ ’’پاکستان پہلے سے زیادہ مستحکم ہے۔ بے رحم دشمن کو شکست دے دی ہے۔‘‘ تو کیا اس تمام صورتحال میں عسکری قیادت جو ملک کا منظم دفاعی ادارہ ہے اپنی مجموعی کارکردگی میں دنیا میں پانچواں مقام اور عالمی سطح پر پیچیدہ ترین علاقہ میں آج بھی بڑی طاقتوں کی نظر میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ادارے کی اس بات کے علاوہ پاکستان کی سیاست کے دیگر فریقوں کے مؤقف میں فرق ہے؟ یقینا عوامی اور عالمی سطح پر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان نہ صرف خطہ میں ایک مستحکم پوزیشن رکھتا ہے بلکہ CPEC ، پاک روس جنگی مشقوں اور یورو ایشیاء کے حوالے سے عملی طور پر پاکستان کے پلڑے میں وزن ڈال دیا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ کو کسی حد تک حیران و ششدر کر دیاکہ وہ اب پاکستان کی اہمیت سے نظریں چرانا شروع ہو گیا اور دانستہ طور پر قطر میں طالبان امریکہ مذاکرات میں پاکستان کو نظر انداز کر کے اپنے اوپر تنقید ہی کرائی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ افغان امن کی جسکے پاس چابی، اہلیت، طاقت و کردار ہو اسے اس عمل سے دور رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے مذاکراتی وفد کے اہم اراکین نے پاکستانی قیادت کو اعتماد میں لیا۔ پاکستان دو بڑی طاقتوں کے اسٹریٹجک مفادات میں ایک اہم دوست کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے یہ طاقتیں پاکستان کے اندر ہونیوالے حالیہ واقعات سے نظریں نہیں ہٹانا چاہتیں۔ اس تناظر میں چین کے سفیر کا بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کرنا اور عمران خان کا چینی سفیر کو یقین دلانا کہ وہ CPEC کو اُتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی چین اہمیت دیتا ہے۔ یقینا چینی سفیر محض مذکورہ چینی منصوبہ پر عمران کا اعتماد و حمایت نہیں لینے گئے ہوں گے بلکہ دو نومبر کے حوالہ سے تبدیل ہوتی صورتحال بارے انہیں تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست بھی کی ہو گی۔
ایسی ہی بات وزیر اعظم نواز شریف پر بھی منطبق ہوتی ہے جو ایک جانب عوامی اور دوسری جانب عالمی رہنماؤں سے گفتگو اور ملاقاتوں میں اپنائیت اور لچک کا اظہار کرتے ہیں۔ نواز شریف ملکی ترقی بالخصوص عالمی سطح پر پاکستان کے اندرونی حالات بارے مشورے دیے گئے ہیں۔ اور انہیں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ عوامی اندیشوں، علاقائی صورتحال، بین الاقوامی معاہدوں، پاکستان میں سرمایہ کاری اور تعلقات میں لو اور دو کے اصول کے علاوہ رواداری برداشت صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کر کے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں انہیں یہ بھی مشورہ دیا گیاکہ وہ ایک رہنما کے طور پر کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
اس ضمن میں 165 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری، توانائی کے بحران سے جلد چھٹکارا، عالمی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات، پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے نتیجہ میں نئی حقیقت کا تقاضا ہے کہ وہ وقتی طور پر سیاسی بحران کے خاتمہ کیلئے دور رس اقدامات کریں۔ اسلام آباد میں خون ریزی، افراتفری، کاروبارِ زندگی کو معطل ہونے سے بچانے کا فائدہ مستقبل میں نواز شریف کو ہی ہو گا۔ عارضی بحران کے حل کی چابی صرف اور صرف انہی کے پاس ہے۔ بحران سے نکلنے مطلب انکی کوئی شکست نہیں بلکہ گزشتہ چند سالوں سے شروع ہوئے ترقیاتی عمل کے تسلسل کو جاری رکھنا ہے۔
موجودہ اور متوقع سیاسی بحران پیدا ہونیوالی کشدگی کو مذکورہ دونوں طریقوں کے علاوہ ایک خیال کیمطابق کسی تیسرے متبادل سے حل کرنے کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وزیر اعظم قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دینگے۔ اُنکے اس عمل سے اُنکے اپنے سیاسی، ماضی و حال میں دی گئی قربانی کا احترام اور اُن کی اپنی قدر میں اضافہ کے ساتھ مستقبل کے ممکنہ انتخابات میں کامیابی کے زیادہ امکانات بڑھ جائینگے۔قوی امکان یہ ہے کہ اس ضمن میں نواز شریف فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ دھرنا کے عمل کو خوش اسلوبی سے نمٹانے کے چند روز بعد قوم سے خطاب کے دوران اگلے سال کے وسط تک قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دینگے۔ جس میں وہ اپنی عوام کیلئے کی گئی خدمات کیلئے اٹھائے گئے مصائب اور ملکی ترقی کی خاطر وہ اس جذبے کے ساتھ اپنے اس فیصلے کو بقول ابراہم لنکن ’’کسی کے کردار کو بے نقاب کرنے کا یقینی طریقہ اسکے ساتھ دشمنی پیدا کرنا نہیں بلکہ اختیار سونپنا ہے۔‘‘ نواز شریف کا یہ اقدام زندگی کے انتہائی مشکل اور چیلنج بننے والے مسائل میں سے ایک سیاسی تنازعات سے نمٹنا ہے۔ یعنی انسانی اور سیاسی اختلافات کو دور اندیشی سے حل کرنا۔ اس اقدام سے نواز شریف یہ تاثر دینے میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں کہ وہ پاکستانی عوام کی صحیح راہنمائی کر سکتے ہیں۔ بڑوں کا کہنا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی اور یہ کہ سیاست نہ اچھی چیز ہے نہ بری چیز ہے اس میں پھنستا وہ ہے جو غلطی کرتا ہے۔