ہمارے ’’روشن خیالوں‘‘ کو زلزلے کی شکل میں انسانوں پر نازل ہونے والی کسی قدرتی آفت کو سرکش انسانوں کے لئے قدرت کی وارننگ سمجھنا بھی گوارا نہیں، پیر 26 اکتوبر کو قیامت خیز زلزلے کی رچر سکیل پر ریکارڈ ہونے والی آٹھ عشاریہ ایک کی شدت کے باوجود ملک میں ملٹی سٹوری عمارتیں اور پلازے محفوظ رہے اور اس شدت کا جانی نقصان بھی نہیں ہوا جس کا سامنا قوم کو 8اکتوبر 2005ء کو سات عشاریہ چھ شدت کے آنے والے زلزلے کے باعث کرنا پڑا تھا۔ ماہرین ارضیات کی اس منطق سے ہی دل بہل گیا ہے کہ زلزلے کے مرکز کوہ ہندوکش پر اس کی گہرائی زیادہ ہونے کے باعث اس زلزلے کی شدت زیادہ ہونے کے باوجود 2005ء جیسے نقصان سے بچت ہو گئی ہے۔ اس زلزلے کے حوالے سے مختلف ٹی وی چینلوں پر ہونے والے ٹاک شوز کے دوران بھی دانشورانہ روشن خیالی کے تحت متعلقہ پروگراموں کے پروڈیوسر اور اینکر خواتین و حضرات کی جانب سے کوشش کی جاتی رہی کہ اس زلزلے سے قدرت کی حقانیت تسلیم کرانے سے گریز کیا جائے اور اسے محض موسمی تغیر و تبدل اور سطح زمین کے نیچے موجود تین پلیٹوں کے باہم ٹکرانے کا باعث قرار دیا جائے۔ مجھے بھی ایک ٹاک شو میں متعلقہ پروڈیوسر کی جانب سے ایسا ہی مشورہ ملا مگر؎
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
کے مصداق بحث شروع ہوئی تو قدرت کی حقانیت کے مظاہر کے تذکرے کے بغیر مکمل نہ ہو پائی۔
ہم نے 26اکتوبر کے زلزلے کا تمام تر دورانیہ ذہن و دل پر مرتب ہونے والے اس کے اثرات سمیت نوائے وقت بلڈنگ کے چوتھے فلور پر ایڈیٹر دی نیشن سلیم بخاری صاحب کے دفتر میں بیٹھ کر گزارا، اس وقت پوری عمارت اور ہم سب کی جو کیفیت تھی وہ زندگی کی آخری گھڑی آنے کی ہی عکاسی کر رہی تھی۔ بتدریج بڑھنے والے زلزلے کے جھٹکوں سے بلڈنگ کے عملی طور پر جُھولنے کی کیفیت اور اس کے درودیوار میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے سورۂ الزلزال میں قیامت کے منظر پر مبنی زمین کی بیان کی گئی حالت بنی تو دل و نگاہ ساکت ہو کر رہ گئے۔ سلیم بخاری صاحب نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمان جاری کیا کہ ہم میں سے کوئی اس کمرے سے باہر نہیں جائے گا کیونکہ آج ہماری زندگی کی آخری گھڑی لکھی ہے تو کمرے سے باہر جانے سے بھی نہیں ٹلے گی اور اگر قدرت نے ہماری زندگی کے مزید دن رکھے ہوئے ہیں تو زلزلے کے کسی بھی نتیجے میں ہماری زندگی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، زلزلے کی آمد سے چند ساعتیں پہلے ہم روزانہ کے معمول والے ’’کتھارسس‘‘ میں مصروف تھے جو بخاری صاحب کے بقول ٹینشن والی زندگی کو آسانی سے گزارنے کے لئے ضروری ہوتا ہے، اسی دوران زلزلے کا پہلا جھٹکا محسوس ہوا تو میں نے سلیم بخاری صاحب کو متوجہ کیا، فضل حسین اعوان، غلام نبی بھٹ اور حافظ امتیاز تارڑ بھی الرٹ ہو گئے، خیال تھا کہ اس جھٹکے کے ساتھ ہی زلزلہ تھم جائے گا مگر الحفیظ والامان، جھٹکے تھے کہ بڑھتے ہی چلے گئے۔ ہمارے سامنے پڑے چائے کے کپ بھی طوفان اٹھاتے نظر آئے۔ کمرے کے شیلفوں میں رکھی کتابیں بھی باہم ٹکراتی نظر آئیں، در و دیوار سے پراسرار آوازیں بھی برآمد ہوتی سنائی دیں۔ پھر یوں محسوس ہونے لگا جیسے پوری بلڈنگ کو کوئی جھنجھوڑ کر اور دھکیل کر گرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہماری زبانوں پر بے ساختہ ذکر الٰہی جاری ہو گیا اور پھر ایک منٹ کے دورانئے کے بعد زلزلے کے آخری جھٹکے نے عملاً پوری بلڈنگ کے زمین بوس ہونے کا منظر بنا دیا، خدا کی پناہ، کس جگر کے ساتھ ہم نے اس لمحے کا سامنا کیا، یہ صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، اسے بیان کرنا ناممکن ہے۔ اس آخری جھٹکے کے بعد بھی عمارت لرزتی رہی۔ بس یوں سمجھئے کہ ہمارا اور برحق موت کا محض ایک سانس کا ہی فاصلہ رہ گیا تھا۔ کیا انسانی بے بسی ہے؎
لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
اگر اتنا نزدیک آنے والی موت بھی ہمیں آغوش میں لئے بغیر نکل گئی اور جھولتے جھولتے زمین بوسی کے قریب پہنچی بلڈنگ میں بھی یکایک ٹھہرائو آ گیا تو بھائی صاحب، آپ قدرت کی حقانیت تسلیم کرنے میں کیوں حجاب محسوس کرتے ہیں۔ یہی تو معجزۂ خداوندی ہے۔ 26 اکتوبر کے زلزلے کے بعد ہماری آج کی زندگی بھی اسی قدرت کا عطیہ ہے جس کے محض ’’کن‘‘ کہنے سے پوری کائنات تخلیق ہو جاتی ہے۔ جسے ارض و سماوی کی ہر چیز پر قدرت حاصل ہے جس کے حکم اور اشارے کے بغیر کوئی پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ ’’کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے‘‘ کیا اس ربِ وحدہُ لاشریک نے اپنی کتابِ ہدایت میں تخلیق کائنات اور نظام کائنات کو، مقصدِ حیات و ممات کو، نیکی اور بدی کے تصور کو اور پھر نظام قدرت و کائنات سے سرکشی اختیار کرنے والی اپنی مخلوق کے ماضی کے انجام اور ممکنہ انجام کو کھول کھول کر بیان نہیں کر دیا۔ کیا ہم سورہ ابراہیم کی آیت نمبر2 میں بیان کی گئی ربِ کائنات کی اس حقیقت کے منکر ہو سکتے ہیں کہ ’’وہی ہے رب کہ جو اس روئے زمین پر ہے اور جو آسمانوں میں ہے، سب اسی کا ہے اور کافروں کے لئے سخت عذاب کے باعث بڑی تباہی ہے‘‘ بلاشبہ رب کائنات کی اس حقیقت کے منکرین ہی کافر ہیں جو ’’کن، فیکون‘‘ والی اٹل حقیقت سے سرکشی اختیار کرتے ہیں، اگر ربِ کائنات نے مقصدِ حیات بھی بتا دیا ہے، زندگی گزارنے کا چلن بھی متعین کر دیا ہے اور ہر موسم جس کی قدرت میں ہے اور قیامت کی ساری نشانیاں بھی کھول کھول کر بیان فرما دی ہیں تو قدرت کے ان مظاہر سے دانستاً صرفِ نظر کرنا موت کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے ہی مترادف ہے۔
اگر آج ڈھنڈورا پیٹا جائے کہ موسمی تبدیلیوں کے سطحِ زمین پر اور اس سے نیچے بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو کیا موسم کی یہ تبدیلیاں قدرت کی منشاء کے بغیر ہی رونما ہو رہی ہیں؟ نظام کائناتِ پر قدرت کو ہی قدرت حاصل ہے تو کیا انسانی ذہنِ رسا کی کوئی حکمت موسمی تغیر و تبدل کو روکنے کا چارہ کر سکتی ہے، یہی سوچ درحقیقت انسانی سرکشی کی بنیاد بنتی ہے اس لئے تسلیم کر لیجئے کہ ہمارے سائنسی علوم موسمی تغیر و تبدل کا جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں وہ سب قدرت ہی کی منشاء ہے۔ اگر سائنسی علوم اور ان کے ماتحت ہونے والی ایجادات انسانی ذہن رسا میں در آئی ہیں تو یہ بھی سب قدرت کی منشاء ہے جس نے کائنات چلانے کا اپنا نظام متعین کیا ہوا ہے۔ اس کے کچھ مظاہر قدرت نے اپنی مخلوق پر آشکارا کر دئیے ہوئے ہیں اور اکثر تک انسانی ذہن کی رسائی ناممکنات میں شامل کر دی ہے۔ قدرت کی منشاء ہوتی تو 26اکتوبر کو اس کے ’’کن‘‘ سے اس روئے زمین پر جو لرزا طاری ہوا تو چند سیکنڈ کے اگلے لمحے میں ساری زمین کا جِن و اِنس، درختوں، پہاڑوں، دریائوں، سمندروں اور روح و بت سمیت کہیں کوئی وجود ہی نہ رہتا۔ سو 26اکتوبر کی ’’الزلزال‘‘ والی گھڑی کے بعد بھی اس روئے زمین پر ہم زندہ سانس لیتے اکڑفوں اور برتری ولے ذہنی خناس میں مبتلا ہیں تو ہماری یہ ساری مہلت قدرت ہی کی ودیعت کردہ ہے۔ اس لئے 26اکتوبر والی کڑی آزمائش سے آج کم از کم اس حقیقت سے تو آشنا ہو جائیے کہ ؎
جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہو گا
دوگز کفن کا کپڑا تیرا لباس ہو گا
ربِ کائنات کے حضور گڑگڑاتے سراپا دعا رہئے کہ دو گز کفن کا کپڑا ہی نصیب ہو جائے ورنہ تو ؎
نہ شانِ سکندر نہ ہے قصرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے