ججوں کا تقرر! ربڑ سٹیمپ بن گئے بامعنی کردار دیا جائے، ججز پارلیمانی کمیٹی نے آئندہ اجلاس نہ بلانے کا اعلان کر دیا
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + عمران مختار/ دی نیشن رپورٹ + نوائے وقت رپورٹ) ججز تقرری کی پارلیمانی کمیٹی کا نوید قمر کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔ اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمشن کی سفارشات پر فیصلے کرنے کے حوالے سے تحفظات ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمشن کی سفارشات منظور کرنے کے حوالے سے ربڑ سٹمپ بن گئی ہے۔ کمیٹی کے اجلاس قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔ جب تک کمیٹی کے کردار کا فیصلہ نہیں ہوجاتا، اجلاس نہیں بلایا جائے گا اور آئندہ کمشن کی سفارشات کو بھی زیرغور نہیں لایا جائے گا۔ حکومت پارلیمانی کمیٹی کا تیار آئینی ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کرے۔ کمیٹی نے کہا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کوٹے پر نہیں کی گئی۔ تحفظات کے باوجود پارلیمانی کمیٹی نے جوڈیشل کمشن کی سفارشات کو منظور کیا ہے۔ ججز تقرری کی سفارشات منظور کرنے یا نہ کرنے سے فرق نہیں پڑتا۔ آئی این پی کے مطابق کمیٹی نے اپنی سفارشات پر عملدرآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیٹی کی سفارشات کو وقعت نہیں دی جاتی، کمیٹی کے اجلاس سے نہ صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ یہ وقت کا بھی ضیاع ہے، کمیٹی اس وقت تک جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کو زیر غور نہیں لائے گی جب تک اعلیٰ عدالتوں میں ججز تقرری کے حوالے سے با معنی کردار نہیں دیا جاتا۔ اجلاس میں پشاور ہائیکورٹ کے 4ایڈیشنل ججوں کو ایک سال کی توسیع پر جوڈیشل کمیشن کی سفارشات سے اتفاق کیا گیا۔ ان میں جسٹس محمد یونس تھہیم، جسٹس قلندر علی خان، جسٹس غضنفر خان اور جسٹس حیدر علی خان شامل ہیں۔ اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر پائے جانے والے شبہات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ ارکان نے کہا کہ کمیٹی کی سفارشات کو جوڈیشل کمیشن کی طرف سے رد کر دیا جاتا ہے تو پھر کمیٹی کا کیا فائدہ؟ ہماری حیثیت ربڑ کی مہر کی طرح ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر مہر ثبت کر دیں۔صباح نیوز کے مطابق کمیٹی ارکان نے خود کو قومی خزانے پر جوجھ وقت کا ضیاع اور پارلیمینٹ کو بے وقعت کرنے کے مترادف قرار دیا خود کو بے اختیار قرار دے کر متفقہ طور پر آئندہ جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر غور کے لئے کمیٹی کا کوئی بھی اجلاس منعقد نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی کے اختیارات پر وزیراعظم محمد نواز شریف کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیم سے متعلق سمری کی منظوری تک کمیٹی نے احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی نے خیبر پی کے سے تعلق رکھنے والے سابق چیف جسٹس (ر) ناصر الملک کی جگہ پنجاب سے سپریم کورٹ کا جج تعینات کرنے کے فیصلے پر بھی تحفظات ظاہر کئے۔ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کی رائے ہے کہ روایت کے مطابق یہ تقرری خیبر پی کے سے ہونی چاہیے تھی۔ اجلاس میں سینیٹر جاوید عباسی، سینیٹر الیاس احمد بلور، محمود بشیر ورک، ارشد لغاری، فاروق ایچ نائیک اور سیکرٹری سینٹ شریک ہوئے۔ آئندہ اجلاس نہ بلانے کے بارے میں باقاعدہ طور پر سینٹ سیکرٹریٹ سے بیان جاری کیا گیا ہے۔ اجلاس میں سپریم کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں ججز تقرریوں کے بارے میں جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر غور کیا گیا۔ کمیٹی نے اتفاق رائے سے جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس ناصر الملک کی سبکدوشی سے خالی نشستوں پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس منظور احمد ملک اور لاہور ہائی کورٹ سے ہی جسٹس سردار طارق مسعود کو سپریم کورٹ میں ججز مقرر کرنے کی سفارشات کی تحفظات کے ساتھ منظوری دے دی۔ کمیٹی نے متفقہ طور پر جسٹس اعجاز الاحسن کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مقرر کرنے کی منظوری دی۔ پشاور ہائی کورٹ کے چار ایڈیشنل ججز جسٹس یونس تھہیم، جسٹس قلندر علی خان، جسٹس حیدر علی کی مدت میں ایک سال کی توسیع کی منظوری دےدی۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سید نوید قمر نے کہا کہ ججز تقرریوں پر پارلیمانی کمیٹی ربڑسٹمپ ہے ارکان نے رائے دی ہے کہ جوڈیشل کمشن خود نامزدگیاں کر کے کمیٹی کو بھیج دیتا ہے کمیٹی کو رد و بدل کا اختیار یا سفارشات کی چھان بین کا اختیار نہیں۔ اس طرح پارلیمانی کمیٹی قومی خزانے پر جوجھ وقت کا ضیاع ہے۔ اسے موثر بنانے کے لیے رپورٹ حکومت کو بھیج دی ہے۔کمیٹی کے اختیارات سے متعلق ترامیم کرنی ہیں۔ کمیٹی کے ارکان نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ جب تک حکومت کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ نہیں لے گی کمیٹی کے اجلاس نہیں ہونگے کمیٹی کی افادیت کے بارے میں آئین میں ترمیم تجویز کی گئی یہ رپورٹ سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں سب کمیٹی نے تیار کی تھی مرکزی کمیٹی باضابطہ طور پر سفارشات کی منظوری دے چکی ہے طویل عرصہ کے باوجود بل لانے کے بارے میں حکومت کوئی فیصلہ نہیں کرسکی۔ سید نوید قمر نے کہا کہ کمیٹی کی افادیت کے لیے اختیارات پر حکومت نظر ثانی کرے۔ کمیٹی کے اجلاس میں متفقہ طور پر یہ رائے بھی دی گئی ہے کہ روایت کے مطابق سپریم کورٹ میں جس صوبے سے جج کی آسامی خالی ہو اسی صوبے سے اس پر تقرری ہونی چاہیے۔ دی نیشن کے مطابق پارلیمانی کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ جب تک اسے ججز کی تقرری کے حوالے سے بامعنی کردار نہیں دیا جاتا جوڈیشل کمشن کی سفارشات پر غور کیلئے آئندہ اجلاس نہیں بلایا جائے گا۔
ججز تقرری کمیٹی