بلدیاتی الیکشن: جماعت اسلامی کا مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف دونوں سے اتحاد، تاریخ کا انوکھا واقعہ
لاہور (فرخ سعید خواجہ) الیکشن 2013ءکے بعد 2015ءکے بلدیاتی الیکشن میں سیاسی جوڑ پڑیں گے۔ لاہور سمیت جن 12 اضلاع میں کل انتخابات ہو رہے ہیں‘ ان میں اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے درمیان ہوگا۔ یوں تو آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں اور پیپلزپارٹی‘ جماعت اسلامی‘ عوامی تحریک نے بھی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا ہے‘ لیکن ان کے امیدواروں کی تعداد اتنی نہیں کہ لاہور میٹروپولیٹن کارپوریشن یا دیگر اضلاع کی ضلع کونسلوں اور میونسپل کارپوریشنوں میں اپنے چیئرمین یا میئر لا سکیں۔ آزاد امیدوار بھی شاید ہی کسی ضلع میں اتنی تعداد میں کامیاب ہو سکیں کہ میئر یا چیئرمین کے الیکشن پر اثرانداز ہو سکیں۔ عام انتخابات کے بعد 31 اکتوبر کے بلدیاتی انتخابات میں ووٹروں کی ایک بڑی تعداد اپنے نمائندے منتخب کرے گی۔ پنجاب کے 12 اضلاع میں 2 کروڑ 85 لاکھ 329 ووٹر ہیں جبکہ لاہور میں 24 لاکھ53 ہزار 182 ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین‘ وائس چیئرمین سمیت جنرل کونسلروں کے 268 پینل میدان میں ہیں۔ تحریک انصاف نے 239 یونین کونسلوں میں چیئرمین‘ وائس چیئرمین اور جنرل کونسلروں کے پینل دیئے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے 125 یونین کونسلوں میں چیئرمین‘ وائس چیئرمین کے پینل دیئے ہی جبکہ 16 یونین کونسلوں میں دیگر جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔ جماعت اسلامی نے پینلز کی بجائے 44 چیئرمین‘ 64 وائس چیئرمین کے امیدوار ترازو‘ شیر اور بلے کے نشان پر کھڑے کئے ہیں۔ جماعت اسلامی کی تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ سیاسی تاریخ کے انوکھے واقعات میں سے ایک ہے۔ عوامی تحریک جس نے دھرنے میں اپنی بے مثال سٹریٹ پاور دکھائی تھی بلدیاتی انتخابات میں لاہور کی 274 یونین کونسلوں سے صرف 29 میں چیئرمین اور 27 میں وائس چیئرمین کے امیدوار دے سکی۔ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹوں سے محروم 49 یونین کونسلوں میں چیئرمین‘ وائس چیئرمین کے پینل بنا کر آزاد حیثیت میں کھڑے ہیں۔ آزاد حیثیت میںکھڑے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار بعض حلقوں میں اپ سیٹ کر سکتے ہیں‘ تاہم مجموعی طورپر مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدواوںکا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔
اصل مقابلہ