میں روٹین میں زلزلے ہی کے کسی اور پہلو پر روایتی سا کالم لکھنے بیٹھا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی، گھر میں کوئی ا ور نہ تھا، میںنے دروازہ کھولا ، ایک ادھیڑ عمر کے سوٹڈ بوٹڈ بزرگ گاڑی سے اتر کر کھڑے تھے، میںنے ان کا بازو تھامااور اندر ڈارئنگ روم میں لے آیا۔ میں ان سے پہلے کبھی نہیں ملا ، انہوںنے اپنا نام بتایا ، پھر بھی کچھ پلے نہ پڑا، آخر انہوںنے تحریک پاکستان کے دفتر کاذکر کیا جہاں سے دو سال قبل انہوں نے فون پر مجھ سے بات کی تھی۔
میرے مہمان نے اپنا تعارف تفصیل سے کروایا مگرمجھے اس امر کا پابند کیا کہ میں ان کا حوالہ دے کر کچھ نہ لکھوں ؛لیکن ایک قلم کار کا کام اور کیا ہے، وہ سی آئی ڈی کا کارندہ تو ہے نہیں کہ معلومات اکٹھی کرے اور دنیا سے چھپا کر رکھے۔
چلئے میں ان کا نام نہیںلکھتا مگر جو باتیں لکھنے والی ہیں وہ ضرور لکھوں گا۔
پہلے تو انہوں نے کہا کہ انہیںمجھ تک پہنچنے میں دو سال اسلئے لگ گئے کہ درمیان میں محترم مجید نظامی کا انتقال پر ملا ل ہو گیا، ورنہ مجید صاحب نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ میرے غریب خانے پر تشریف لائیں گے، کاش ! ایسا ہو جاتا مگر میرا یہ بخت کہاں۔
یہ صاحب محترم، مجید نظامی کے کلاس فیلو ہیں ، پورے اٹھاسی برس کے۔ انکے لب ولہجے سے لگتا ہے کہ دونوںکے درمیان خاصی بے تکلفی پائی جاتی تھی، کہتے ہیں کہ ایک روز وہ تحریک کے دفتر میں گئے تو ایک طرف سے کسی نے زرودارا ٓواز میں السلام علیکم کہا ، میںنے بھی اسی آہنگ میں و علیکم السلام کہہ دیا اور لائیبریری چلا گیا، شام کو گھرپہنچا تو نظامی صاحب کا فون آیاکہ لگتا ہے تم مجھ سے ناراض ہو، اس لئے میں تمہارے گھر آنا چاہتا ہوں۔میںنے کہا کہ اول تو میں ناراض ہر گز نہیں، لیکن اگر آپ کا خیال ہے کہ ناراض ہوں تو میرا فرض بنتا ہے کہ آپ کے گھر آﺅں ، خیر میں گیا اور دیر تک گپ شپ ہوتی رہی، کوئی ناراضی تھی ہی نہیں ،ا سلئے اس کاذکر تک نہیںہوا مگر میںنے ان کے سامنے ایک حاجت بیان کی، انہوںنے میرا نام لے کر کہا کہ یہ مشکل وہی حل کر سکتا ہے، اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر اس کے کلاس فیلو ہیں۔ کسی دن اکٹھے اس کے پاس چلیں گے۔ابھی تک اس کا نیا ٹھکانہ بھی نہیں دیکھا۔
اور پھر وہ بیمار پڑ گئے، ہسپتال گئے ، جہاں سے اگلے جہان کا رخت سفر باندھا، رہے نام اللہ کا!
میرے مہمان نے باتیں شروع کیں۔ کہنے لگے ان کے والد ریزرو بنک آف انڈیا میں ا علی عہدے پر تھے۔ آزادی ملی تو ان کی ڈیوٹی لگی کہ وہ بھارت جائیں اور پاکستان کے حصے کا سونا لے کر آئیں۔ وہ اپنے مشن پر روانہ ہوئے۔ منزل پر پہنچے تو جواب ملا کہ کیا سونا سرپہ لاد کے لے جاﺅ گے۔، انہوںنے کہا کہ آپ لوگ کوئی جہاز دے دیں، جواب ملا ، جہا زتو آپ پاکستان سے منگوائیں۔ چنانچہ ایک چھوٹا طیارہ فوری طور پر وہاں پہنچا۔ جہا زکا عملہ آرام کے لئے میس میں چلا گیا۔ میرے والد نے کہا کہ بھئی، چند مزدور منگوا دو، جواب ملا وہ تو آپ کو ساتھ لانے چاہئیں تھے، انہوں نے کہا کہ جہاز کے عملے کو یہاںبلوا دو تاکہ ہم مل جل کر سونے کی پیٹیاں جہاز پر لاد لیں ، کہا گیا کہ وہ یہاںنہیں آ سکتے۔ چارو ناچار میرے والد نے کئی گھنٹوںمیں ساری پیٹیاں لوڈ کیںا ور واپسی کی راہ لی۔ ہندووں نے اپنا ریزرو بنک رات کے گیارہ بجے تک کھلا رکھا تھا ، ان کاخیال تھا کہ سونے کی پیٹیاںلادنے والا تو ملے گا کوئی نہیں،ا سلئے ا سے واپس اپنے خزانے کا حصہ بنانا ہوگا۔ مگر انکی یہ تمنا پوری نہ ہو سکی۔
میںنے ٹی وی کی طرف دیکھ کر مہمان کو بتایا کہ فوج نے بہت جلد قراقرم ہائی وے کھلو ادی ہے، بڑا مشکل کام تھا۔ مہمان نے قہقہہ لگا یا ، کہنے لگے میںفوج میں انجینئر تھا، اس شاہراہ پر کام کرنے کا شرف مجھے حاصل ہو اتھا، ایک دشوار گزار مقام پر دونوں طرف سے سڑک تعمیر ہو گئی مگر پل نہیں بنا تھا۔ پاکستان نے چو این لائی سے درخواست کی وہ سڑک کاافتتاح کریں، چو این لائی نے سڑک کا نقشہ دیکھا ور اور کہا جب رابطہ پل بن جائے گا تو وہ آدھی رات کو بھی افتتاح کے لئے آ جائے گا، اس کی خواہش ہے کہ چینی ٹرک کسی طرح اس راستے کراچی کی بندر گاہ تک آنے جانے لگیں۔
شاہراہ ریشم صرف چینیوں کی ہی دلچسپی کا مرکز نہیں تھی، امریکی ا ور یورپی سفارت کار بھی جب وقت ملتا،ا س طرف آ نکلتے۔ ایک روز میں کسی جگہ کام میںمصروف تھا کہ اطلاع ملی برطانوی سفارت کار ادھرا ٓ رہے ہیں ان کی فیمیلی بھی ہمراہ ہے۔قدرت کا تماشہ دیکھئے کہ مجھے دور سے سفارت کار کی گاڑی نظرا ٓ رہی تھی مگر عین ا سوقت ایک لینڈ سلائیڈ نے سڑک بند کر دی۔میں افتاں وخیزاں دوسری طرف گیا اور سفارت کار سے کہا ، یہ قدرت کاکھیل ہے مگر آپ،پریشان نہ ہوں، میں اپنی طرف سے دو گاڑیاںمنگوائے دیتا ہوں ،ا ٓپ گلگت چلے جائیے، تین روز بعد ہم سڑک صاف کر کے آپ کی گاڑی بھی وہاں پہنچا دیں گے۔ برطانوی سفارت کار نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا کہ کہ اگر ہمیںپتہ ہوتا کہ ا دھر سے چین تک سڑک بن سکتی ہے تو ہم چیانگ شائی چیک کی مدد میںکوئی ڈھیل نہ دکھاتے۔
میرے مہمان کی آنکھیں چمک رہی تھیں،آج یہ شاہرہ ایک عظیم اقتصادی کوریڈور میں تبدیل ہونے کو ہے اور آرمی چیف نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ا س خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فرگزاشت نہیں کریں گے۔
میںنے پوچھا کہ آپ فوج میں تھے تو لا محالہ جنگوںمیں حصہ لیا ہو گا۔ کہنے لگے پہلی جنگ تو رن آف کچھ میںلڑی۔ وہاں سے خبریں آ رہی تھیں کہ تیل نکل آیا ہے، بھارت نے پینسٹھ کے اپریل میں دو ڈویژن فوج وہاں ڈال دی۔ ہمارے پاس ایک ڈویژن فوج صرف کوئٹہ میں تھی اور وہ بھی صرف دو بریگیڈ پر مشمل، اسے حکم ملا کہ وہ بھارتی فوج کو وہاں سے بھگائے۔میںنے اس جنگ میں حصہ لیا، یہ ایک ڈرامائی داستان ہے، تاہم اس کے بعد بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے کھیم کرن کے ریسٹ ہاﺅس میں تقریر کرتے ہوئے بڑ ہانکی کہ وہ آئندہ اپنی مرضی کا محاذ کھولیں گے۔انہوں نے مرضی کا محاذ بہر حال کھولا، یہ الگ بات ہے کا کھیم کرن کا وہ ریسٹ ہاﺅس پاک فوج کے قبضے میں آ گیا، میں ان دستوں میں شامل تھا جو پیش قدمی کرتے ہوئے ولٹوہا کے ریلوے اسٹیشن تک پہنچے۔
میںنے پوچھا کہ قبائلی علاقوںمیں جنگ کو کوئی موقع ملا، کہنے لگے کیوںنہیں، ایک فوجی توسارا ملک گھوم جاتا ہے، افغانستان نے دو ڈویژن فوج سے جنوبی وزیرستان پر چڑھائی کی تو میں ان دفاعی دستوں میں شامل تھا جنہوں نے افغان فوج کو وہاں سے مار بھگایا۔میںنے پوچھا کہ افغانیوںنے کیوں حملہ کیا۔ کہنے لگے ، افغان شروع ہی سے امریکہ، برطانیہ ا ور بھارت کے حکم کے بندے ہیں، آج تک ان کا شیوہ یہی ہے۔ان طاقتوںنے جب بھی پاکستان کو تنگ کرناہو تو افغانیوں کوہلہ شیری دیتے ہیں۔
میرے مہمان اچانک ا ٹھ کھڑے ہوئے، انہوں نے ایک مومی لفافے سے کچھ کاغذ نکال کر مجھے دیئے اور کہا کہ ا نہیں پڑھ لینا ، میرے بارے میں بہت کچھ علم ہو جائے گا، پھر انہوںنے ایک بند لفافہ مجھے دیا کہ یہ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک کے لئے ہے، کیا ہی بہتر ہوتا کہ نظامی صاحب بھی آج میرے ساتھ ہوتے اور وہ آپ سے بات کرتے۔میںنے کہا میرے لئے آپ کا حکم نظامی صاحب کا حکم ہے اور میں اس کالم کے ذریعے اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر کومطلع کرتا ہوں کہ وہ اپنی امانت مجھ سے وصول کر لیں۔ یہ میرے مرشد نظامی کا حکم نامہ ہے۔