بھارت کا فیلڈ مارشل سیم مانک شا 1947میں کرنل تھا اور جی ایچ کیو دہلی کے اپریشنز برانچ میں تعینات تھا۔ تقسیم ہند کے وقت وقوع پذیر ہونیوالے اہم واقعات کا وہ نہ صرف عینی شاہد تھا بلکہ کچھ واقعات کا اہم کردار بھی تھا۔جب کشمیر کی قسمت کا فیصلہ ہورہا تھا تو اسے بنیادی کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور اسکی رپورٹ پر کشمیر میں بھارتی فوج داخل کی گئی۔ جب یکم جنوری1949 کو کشمیر میں جنگ بندی ہوئی تو جنگ بندی کے سگنل پر بھی مانک شا ہی کے دستخط تھے۔کشمیر کے مسئلے پر بعد میں بھارت کے مشہور صحافی پریم شنکر جھا نے اس سے انٹرویو کیا۔ تفصیل کرنل مانک شا کے اپنے الفاظ میں درج ذیل دی جا رہی ہے۔
”یہ دن کے اڑھائی بجے تھے اور میں اپنے دفتر میں موجود تھا کہ اچانک جنرل سررائے بچرSir Roy Bucher جوآزادی کے بعد بھارتی فوج کا پہلا کمانڈر انچیف بنا دفتر میں داخل ہوا اور آتے ہی مجھ سے مخاطب ہو کر کہا:
” اے تم! گھر جاﺅ اور اپنا ٹوتھ برش وغیرہ اٹھا کر لاﺅ۔تمہیں وی۔پی مینن کے ہمراہ کشمیر جانا ہے۔جہاز چار بجے روانہ ہوگا۔“
میں نے پوچھا : ”سر میں کیوں؟“ جواب تھا :
” اس لئے کہ ہم کشمیر کے فوجی حالات کے متعلق پریشان ہیں۔ وی پی مینن جا کر مہا راج اور مہاجن سے کشمیر کیساتھ الحاق کا معاہدہ دستخط کرائے گا “
مہر چند مہاجن کشمیر کا وزیر اعظم تھا۔ شام کو ہم لوگ ایک ڈکوٹہ طیارے میں روانہ ہوئے۔ اس میں سکوارڈن لیڈر دیوان چند بھی موجود تھا ۔اسکا کام بہر حال فوجی حالات کا تجزیہ نہ تھا بلکہ اسکی ذمہ داری بھارتی فوج کو وہاں بذریعہ جہاز پہنچانا تھا۔اپریشنز برانچ میں ہونے کی وجہ سے مجھے یہ تو پہلے ہی معلوم تھا کہ قبائلی لشکر کشمیر میں داخل ہو کر بارہ مولا تک پہنچ چکا ہے جو سری نگر سے محض 7سے9 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ انہیں پاکستان کی امداد بھی حاصل ہے لیکن خوش قسمتی سے آگے بڑھنے کی بجائے یہ لوگ وہاں لوٹ مار اور قتل وغارت میں مصروف ہو گئے ۔ میرے ساتھی اور دوست کرنل ڈائیک اور اس کی بیگم کو قبائلیوں نے قتل کر دیا تھا۔ یہ جوڑا وہاں چھٹیاں گزارنے گیا تھا۔
مہا راجہ کی فوج میں سے 50 فیصد ڈوگرے تھے اور 50فیصد مسلمان ۔جب قبائلی لشکر دا خل ہوا تو مسلمان ٹروپس بغاوت کر کے انکے ساتھ مل گئے(یہ بات مکمل طور پر درست نظر نہیں آتی کیونکہ مسلمان ٹروپس مکمل طور پر تربیت یافتہ تھے ۔انہیں اہم مقامات کی فوجی اہمیت کا اندازہ تھا۔وہ قبائلیوں کیساتھ اپنے ہی لوگوں کے قتل و غارت میں مشغول ہونے کی بجائے سری نگر ائیر پورٹ اور دیگر اہم مقامات پر قبضہ کرتے جیسا کہ انہوں نے شمالی علاقہ جات میں کیا)بہر حال فوجی نقطہ نظر سے تو مجھے حالات کا اندازہ تھا ۔
ہم چند دن پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ اگر کشمیر میں فوج داخل کرنے کا مر حلہ آتا ہے تو یہ بذریعہ ائیر ہی ہوگا۔ زمینی راستہ سے یہ ممکن نہ ہوگا اس لئے ہم نے کشمیر کیلئے ٹروپس یونٹس سے نکال کر ائیر پورٹ کے ساتھ ٹھہرا رکھے تھے تا کہ فوری طور پر روانہ ہو سکیں۔اس مقصد کیلئے ائیر مارشل Elmhusrt نے فوجی اور سول ذرائع سے جہاز بھی مہیا کر دئیے تھے۔رکاوٹ صرف ایک ہی تھی کہ جب تک مہا راجہ بھارت سے الحاق کے معاہدہ پر دستخط نہیں کرتا فوج کشمیر میں داخل نہیں کی جا سکتی۔الحاق کیلئے سردار پٹیل اور وی پی مینن کو شش کررہے تھے اور وی پی مینن نے اس معاہدے پر دستخط کرانے تھے۔
بہر حال ہم لوگ سری نگر ائیر پورٹ پر اتر کر سیدھے مہاراجہ کے محل کی طرف گئے۔ پورا محل بد نظمی اور گھبراہٹ کا شکار تھا۔ تمام کمروں میں سامان بکھرا پڑا تھا جسے پیک کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔موتیوں اور ہیرے جواہرات کے زیورات کا ڈھیر بھی بکھراا پڑا تھا ۔ میں قیمتی ہیرے جواہرات کے زیورات دیکھ کر حیران ہوا کیونکہ میں نے زندگی میں کبھی اتنے زیادہ اور اتنے قیمتی زیورات نہیں دیکھے تھے ۔مہاراجہ سخت گھبراہٹ کا شکار تھا۔ کبھی ایک کمرے میں داخل ہوتا اور کبھی دوسرے میں۔ منہ سے بڑبڑا رہا تھا کہ اگر بھارت ہماری مدد نہیں کرتا تو میں اپنی فوج کیساتھ جا کر دشمن سے لڑوں گا۔ میں نے مذاق میں کہا :
”سرآپکے جا کر لڑنے سے فوج کا مورال بہت بلند ہوگا “
جسکا کوئی جواب نہ ملا۔ محل کے باہر گاڑیوں کی ایک لمبی قطار انتظار میں تھی۔ بہر حال میں فوجی حالات کا اندازہ لگانے کیلئے مختلف لوگوں سے ملا جبکہ مینن صاحب مہاراجہ اور مہاجن کیساتھ بات چیت میں مصروف ہوگیا۔
فوجی حالات تقریباً وہی تھے جن کا مجھے پہلے ہی علم تھا یعنی قبائلی سری نگر سے محض7سے9کلومیٹر کے فاصلے پر تھے اتنی دیر میں مینن نے مہاراجہ سے دستخط کرالئے اور ہم واپسی کےلئے تیار ہوئے۔ سری نگر ائیر پورٹ ایک معمولی ائیر پورٹ تھا جہاں رات کی پرواز کی سہولتیں میسر نہ تھیں۔ جب تک ہم لوگ فارغ ہوئے صبح کے تین یا چار بج رہے تھے ۔ اندھیرے میں جہاز کا پرواز کرنا مشکل تھا اور مزید انتظار بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لہٰذا شیخ عبداللہ ،قاسم صاحب ،صادق صاحب ،بخشی غلام محمد اور ڈی پی دھر نے لکڑی کی مشعلیں روشن کیں اور انکی روشنی میں طیارے نے اڑان بھری۔
واپسی پر میں نے اپنے کمانڈر انچیف کو رپورٹ دی تو اس نے مجھے تیار ہو کر صبح اسمبلی کی میٹنگ میں آنے کا حکم دیا۔ میٹنگ ٹھیک 9بجے شروع ہوئی اور اسکی صدارت لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے کی۔ انکے علاوہ میٹنگ میں جواہر لعل نہرو ،سردار پٹیل ،سردار بلدیو سنگھ اورکچھ اور بھی وزراءموجود تھے جنہیں میں نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے جاننے کی ضرورت تھی ۔پٹیل اور مینن کو میں اسلئے جانتا تھا کیونکہ ہر روز پٹیل مینن کو بلا کر کہتا کہ:
” مجھے فلاں ریاست چاہیے۔مجھے بروڈہ یا فلاں ریاست چاہیے ۔سیم کو ساتھ لے جاﺅ “
اور یوں مجھے ساتھ جانا پڑتا میٹنگ شروع ہوئی تو ماﺅنٹ بیٹن نے مجھ سے پوچھا :
”مانک جی ملٹری رپورٹ کیا ہے ؟“
میں نے ملٹری رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ اگر ہم بذریعہ جہاز نہ گئے تو پھر ہم سری نگر کبھی نہیں لے سکیں گے ۔اور مزید یہ کہ طیارے بھی موجود ہیں اور ٹروپس بھی ائیر پورٹ پر تیار ہیں۔ نہرو حسب معمول گومگو کیفیت کا شکار تھا۔ وہ کبھی اقوام متحدہ کی بات کرتا۔ کبھی افریقہ کی اور کبھی روس کی۔ نہرو کے اس رویے پر پٹیل کو غصہ آگیا اور درشتی سے کہا ”جواہر لعل تمہیں کشمیر چاہیے یا نہیں؟ اگر چاہیے تو ابھی حکم دیں۔“
لیکن جواہر لعل کے کچھ کہنے سے پہلے ہی پٹیل نے میری طرف مخاطب ہو کر کہا© ”آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ فوری جا کر اپنی فوجی کاروائی شروع کریں “ اور 11 یا 12 بجے سکھ رجمنٹ سری نگر ائیر پورٹ کی طرف پرواز کرگئی۔
نوٹ: یہ حالات پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ پاکستان کی طرف سے کشمیر لینے کی سنجیدہ اور ذمہ دارانہ کوشش نہیں کی گئی۔معلوم نہیں قبائلی لشکر کس نے بھیجا۔ انکا کمانڈر کون تھا اور وہ بارہ مولا میں تین دن کیوں رکا؟ لشکر لوٹ مار اور قتل و غارت میں کیوں مصروف ہوا ۔ وہ سیدھے سری نگر ائیر پورٹ کی طرف کیوں نہیں گئے جو محض ایک دن کی مسافت تھی جبکہ انہوں نے تین دن بارہ مولا میں ضائع کر دئیے۔
یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں اور یہی ہماری ناکامی کا سبب بنے ۔ شمالی علاقہ جات میں مناسب لیڈر شپ اور منصوبہ بندی کےساتھ کوشش کی گئی اور 28 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ آزاد کرا لیا گیا۔یاد رہے کہ پاکستان آرمی اس لشکر میں شامل نہ تھی۔