غم توپہلے ہی دل پر چھایا تھا چکر اتنے کہ کھڑا ہونا دشوار ، کام سے فراغت بعد دروازے کا سہار ا لیا تو عجیب سا محسوس ہوا۔ یہ کِس قسم کے چکر ہیں کہ شدت بڑھتی معلوم ہوئی۔ پھر اِک اور اراضی قیامت تھی کہ گھنٹوں بعد بھی وجود میں کپکپاہٹ تھی۔۔
ہولناک آواز کے ساتھ ، شدت ’’8.1‘‘، مگر بے پایاں رحمت الہٰی کہ بڑے پیمانے کی ہلاکتوں سے محفوظ رکھا۔زلزلہ متاثرین کیلئے غیر ملکی امداد نہ لینے کا حکومتی فیصلہ قابل ستائش ہے مگر کتنی مدت تک؟ اِس بات کا تعین نہیں ہوا۔۔ریلیف اور ریسکیو کی جاری کوششوں کو دیکھتے ہوئے ماضی کے بہت سارے سوالات زمین میں اُبھر رہے ہیں۔آسمانی بلائیں آتی ہیں تو ارضی آفات کا نزول بھی بڑھ جاتا ہے۔ حسب معمول متاثرین ’’وی ۔آئی ۔پی‘‘ دوروں کے دوہرے عذاب بُھگتا رہے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ ’’2005ء کے زلزلہ متاثرین’’2015 ‘‘ کے وسط میں بھی متاثرین کی کیٹگیری میں ہی ہیں۔
داد رسی کے مقصد تحت قائم کردہ اداروں کی تعداد بڑھتی دیکھی مگر داد رسی وہیں پر کھڑی ہے۔ بھاری وجود ۔مشاہرے۔لگثرری گاڑیوں کے حامل ادارے صرف امدادی اشیاء کی ترسیل تک محدود رہتے ہیں۔یقینا آفات روکنا ۔قبل ازوقت پیشگوئی ناممکن ہے مگر نمٹنے کی صلاحیت تو بہت بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ہلاکتوں کے لحاظ سے رحمت رہی مگر اب کی مرتبہ زلزلے نے ملک کی پہاڑی و ارضی بنیادیں ضرور ہلا دی ہیں۔ تحفظ اور خدشات کے بیچ قدرتی عذابوں سے احسن طریق سے نہ نمٹنے کی استعداد خوفزدگی پیدا کر رہی ہے ان حالات میں کہ ماہرین (’’اﷲ تعالیٰ نہ کریں‘‘ ) آئندہ چند دنوں میں مزید ہولناک زلزلہ کی وارننگ دے رہے ہوں۔خطرات تب بڑھ جاتے ہیں ۔جب سر سبز درخت اور کوہ قامت پہاڑ کٹنے لگیں۔’’ کُرہ ارض‘‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے ایک گھمبیر بحران سے گُزر رہی ہے۔ سبز میدانو ں کی جگہ ریت۔بجری کے بلند ہوتے پلازوں کی بہتات سنگین صورتحال کا باعث بن رہی ہے۔ حکومت کو اس ضمن میں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ترتیب سے لگی ہوئی لگثرری گاڑیاں ، قیمتی سوٹ ، گرم جیکٹس زیب تن کیے لوگ،سماج کی ہر قابل ِ خرید اشیاء تک باآسانی رسائی رکھنے والے کِس قدر بے بس تھے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قلت واپسی کے راستے بند، اُوپر سے مسلسل بارش کے ساتھ دلوں کو دہلاتی آسمانی بجلی کی کڑک ۔ایک دن میں ہی برفباری کا ’’40 سالہ‘‘ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔بقول ’’اہل ناران‘‘ غیر متوقع اور شدید برفباری نے ناران ، کاغان میں بحران کی سی صورت پیدا کر دی۔ بے وقت بارش، غیر متوقع برفباری یا پھر اچانک زلزلہ ، قدرتی حادثات ، آفات کچھ بھی اطلاع دے کر نہیں آتا بس نمٹنے، سنبھلنے کا ہنر آنا چاہیے۔ کچھ دوسری طرح یوں بھی کہ زندگی میں راہِ آخرت کا زاد سفر اتنا ہو کہ گناہوں کی گٹھڑی وزنی نہ ہونے پائے کہ مرنے سے ڈر لگے۔ ’’ڈومور‘‘ ، مطالبات ، سیاست میں وحشت ، انتہا پسندی ہو یا پیار۔ نفرت، جرم ، موسمی رُتوں کا بدلتا پیٹرن ، کوئی بھی شدت اچھی نہیں۔
’’اصل اعلامیہ کی رُونمائی‘‘
’’پاکستان‘‘ دہشت گردی کیخلاف مزید اقدامات کرے۔ ’’امریکہ‘‘ ماضی قریب میں پاکستان نے اِس حوالے سے اقدامات کیے ہیں۔ مگر امریکہ چاہتا ہے کہ ان اقدامات کو مزید وسعت دے۔
ہرکامیاب دورے کے ظاہری اعلامیہ کے بعد ’’اصل اعلامیہ کی رُونمائی‘‘ یہ خوب کہی کہ بھارت کے بارے میں ’’ڈوزئیر‘‘ کا ابھی جائزہ نہیں لیا۔ ناکردہ گناہوں کے بوجھ نے ہمارا کباڑہ کر دیا۔۔’’100 بلین ڈالرز‘‘ کا نقصان (صرف ظاہر کردہ) ایک طرف ’’50 ہزار ‘‘ سے زائد جانی نقصان سب پر بھاری ہے۔ مہاراج کے پاس اتنا وقت نہیں کہ چند سطریں پڑھ لیتے۔ اُلٹا رٹ ’’ڈومور‘‘ ہمسائے کی درندگی دیکھو کہ قیامت خیز لمحات میں بھی بارود کی بارش برسانے سے باز نہیں آیا اور فرماتے ہیں کہ دونوں ملک اپنی تشویش کے بارے میں ایک دوسرے سے بات کریں۔ انڈیا چند فقرے بھی ہضم نہیں کر پایا۔ دہشت گردی کو باہمی معاملہ قرار دینے اور کشمیر کو تنازعہ کہنے پر امریکہ سے احتجاج ۔
’’حرف ِسپاس ‘‘
’’ایدھی فائونڈیشن ‘‘ کی طرف سے ’’مودی‘‘ کے ٹویٹ کردہ ایک کروڑ روپے عطیہ کو لینے سے انکار ، کم از کم ہم جیسے تو بہت خوش ہیں۔ بڑی پیچیدگی کا سامنا ہے۔’’68 سالہ دشمنی‘‘ تو سرحد کے ایک طرف ہے مگر بقیہ 3 سرحدی اطراف(نام نہاد مسلم اُمہ)برادرانہ کشیدگی،جغرافیائی بغض ، حسد کا گنجلگ معاملہ بھی ہے۔ دشمن تو دیکھا بھالا ہے مگر برادر ممالک کی سازشوں کا کیا کہیں۔۔ اچھی تصویر ہے کہ دشمن کے صحن سے آپسی لڑائی کی آوازیں سُنائی دے رہی ہیں۔ غیر ضروری ٹکرائو۔ بلاوجہ کشیدگی سے خود کے شہری بلبلا اُٹھے حتیٰ کہ ازلی وفا دار ’’فاروق عبد اﷲ‘‘ نے مقبوضہ ریاست کے ٹو ٹنے کا خدشہ ظاہر کر دیا۔ کہہ ڈالا کہ ’’ ایک لاکھ کروڑ‘‘ کا پیکیج بھی کشمیریوں کے دل نہیں جیت سکتا۔ حالات بہت خطرناک ہیں۔ ’’مودی‘‘ کے دور میں صرف کشمیر ی نہیں بلکہ انڈیا بھر کے مسلمان عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ جبکہ ہمارا خیال ہے کہ انتہا پسندی کے ’’جن‘‘ سے خیر برآمد ہو گی۔ جس ’’بوتل‘‘ کو ’’جنونی گروہوں‘‘ نے اپنی گندی پُھونکوں سے بھرا ہے وہ پھٹے گی توخطہ میں سکون ، امن ہو گا۔ انتہا پسندی کی بڑھتی شدت ہی فضا کو صاف کر یگی ۔ وہ دن جلد آنیوالا ہے۔
’’پیغمبر کا پیغام‘‘یہ عنوان ہے112 صفحات کی ’’مار واڑی زبان میں لکھی گئی کتاب کا جو ’’محمد عربی رسول مقبول ﷺ ‘‘ کی سیرت طیبہ پر لکھی گئی ہے۔ کتاب لکھنے کا مقصد معاشرے میں امن کا فروغ ہے، لکھنے والا ہے، 27 سالہ ہندو نوجوان’’راجیو شرما‘‘ آجکل دھمکیوں کی زدمیں ہے مگر عزم ’’ ان شاء اﷲ‘‘ قرآن مجید کا مارواڑی میں ترجمہ کروں گا۔ کرشمہ ،بُت خانے سے توحید کا پر چار کرنیوالے بڑھتے جائینگے۔انتہا پسندی کے غبارے میں جتنی ہوا بھرو گے ۔غبارہ اُتنی تیزی سے پھٹے گا کہ سب کچھ بہا کر لے جائیگا۔ شدت کوئی بھی اچھی نہیں ہوتی ۔ چاہے کِسی بھی معاملہ میں ہو۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024