امیدوار یہ نہ دیکھیں مدِمقابل امیدوار کتنا بڑا جاگیردار ہے، سراج الحق.
امیر جماعت اسلامی نے گو کہ یہ بیان اپنی پارٹی کے امیدواروں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے دیا ہے مگر یہ ان سب کے لئے ہے جو سیاست میں تو دبنگ ہیں، تگڑے ہیں مگر فی زمانہ جس سرمائے اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اس میں مار کھا جاتے ہیں۔ کئی تو ایسے کمزور ہوتے ہیں کہ ک±ٹ بھی پڑ جاتی مگر سیاست دان انڈوں سے ڈرتا ہے نہ ڈنڈوں سے۔
میدان سے دوڑتا نہیں ہے تیغ بھی لڑتا ہے۔ شیخ رشید تو جیل کو سیاستدان کا س±سرال اور موت کو محبوبہ کہتے ہیں۔اچھا ہے موت کو ماسی نہیں کہتے۔ شیخ صاحب سسرال یعنی جیل جاتے رہتے ہیں۔ اب گھر سے گئے تو سمجھا گیا کہ جیل چلے گئے۔ واپس آئے تو بتایا کہ چلے پر گئے تھے۔ انہوں نے جو کچھ چلّے کے بعد آ کر کہا یہی لگتا تھا کہ واقعی چلّے سے ہی واپس آئے ہیں۔ چلّا کاٹنے والے بتاتے ہیں کے وہ اجاڑ بیابان یا قبرستان میں ریاضت کرتے ہیں۔ ان کو کیا کیا دکھائی دیتا ہے۔ ڈرایا جاتا ہے۔ کبھی آگ کا دریا، کبھی پھنکارتا سانپ کبھی چڑیلیں جن بھوت....-کی شیطانی یا روحانی قوتیں حاصل کرنے کے شوقین یا خواہشمند ڈر کر دوڑ لگا دیتے ہیں۔ شیخ صاحب کا چلا ادھورا رہا یا مکمل کر لیا؟ اس کا اندازہ ان کے بیانات سے ہو جاتا ہے۔ اب کے سسرال تو گئے مگر کپتّی ساس کے ہتھے چڑھ گئے۔
سراج الحق صاحب نے الیکشن کا بگل بجنے پر امیدواروں کو کہہ دیا ہے گھبرانا نہیں گویا :
اٹھا سا قیاپردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
عموماً دوسرے مصرعے کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اب ممولے شہباز سے لڑیں گے۔ ہم پہلے مصرع پر بات کریں گے۔ وڈیروں کا مقابلہ کر لیا جاتا ہے جیت بھی جاتے ہیں مگر میئر نہیں بنتے۔ سراج الحق صاحب اس راز سے پردہ اٹھائیں۔ الیکشن 8 فروری کو ہو رہے ہیں۔ یہ نوے روز میں ہونے تھے۔ اس پر مرکزی نگران وزیر اطلاعات نے کہا ہے کہ آئین میں صرف نوے روز کا آرٹیکل نہیں 254 دن کا بھی ہے۔ الیکشن 60 روز میں ہونے ہیں، نوے دن میں ہونے ہیں، 254 ایام میں ہونے ہیں یا اس سے بھی زیادہ عرصے میں ہونے ہیں حتیٰ کہ ہونے ہی نہیں، ماہرین آپ کو آئین سے ثابت کر دکھائیں دیں گے۔ ہمارے آئینی معاشی اور دیگر ماہرین جادوگر بھی ہیں۔ یہ ماہرین الیکشن کرانے کا جس کو چاہے کریڈٹ دیدیں جس پر چاہیں نہ کرانے کا ملبہ ڈال دیں۔ صدر علوی کو بھی سخت سوالات کا سامنا ہے کہ انہوں نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔ صدر کبھی اتنا طاقتور ہوا کرتا تھا کہ حکومتیں اور اسمبلیاں توڑ دیتا تھا۔ کئی صدر تو مخالفین کی ہڈیاں بھی تڑوا دیتے تھے۔
صدر اسحق خان اور وزیر اعظم نواز شریف میں ان بن ہوئی۔ کسی طرف سےحکومت توڑنے کی بات ہوئی۔ شیخ رشید جو میاں نواز شریف کے ان دنوں دستِ راست سے تھے گویا ہوئے جو صدر بادام نہیں توڑ سکتا وہ حکومت کیسے توڑے گا، صدر غصہ کھا گئے اور واقعی اسمبلی توڑ دی۔ اس کے بعد صدر بے اختیار کر دیا گیا۔ علوی صاحب کتنے طاقتور ہیں۔ انہوں نے اپنا سیکرٹری ہٹا دیا، نئی تعیناتی کردی مگر عمل نہ ہوا۔ اب الیکشن کمشن کی منظوری سے دو ڈھائی ماہ بعد ان کو سیکرٹری ملا ہے۔ بڑا پاورفل صدر ہے! سوال تو بنتا ہے کہ الیکشن کا اعلان کیوں نہ کیا! ایک صدر ایوان صدر کی دیوار پر لکھا کرتا تھا صدر کو رہا کرو۔
٭٭٭٭٭٭
سڑک پر روک کر رشوت لی، قومی کرکٹر صہیب اور عامر یامین۔ 4 پولیس اہلکار گرفتار۔
پولیس لوگوں کو روکتی ہے، ٹوکتی ہے۔ رشوت لیتی ہے کہیں شاباش بھی دے دیتی ہے۔ پولیس میں قابلِ فخر سپوت ہیں۔ پولیس میں اللہ والے بھی ہیں۔ جو رشوت نہیں لیتا وہ اللہ والا اور ولی اللہ ہے۔ کسی شاعر نے یہ تک کہہ دیا:
ہم اس کو ولی سمجھے جس میں اللہ کا ڈر دیکھا۔
پولیس کے بارے میں کچھ ”یونیورسل ٹروتھ“ بھی پھیلائے گئے ہیں۔ کسی اہلِ پولیس سے پوچھا کہ کبھی ”غیر حلال“ بھی کھایا ہے۔ اس نے کہا طوفان آیا ہوا تھا گھر سے نکل نہ سکا۔ اس دن گھر سے روٹی کھانی پڑی تھی۔ پولیس میں وہی کامیاب رہتا ہے جو بندہ کبندہ دیکھ کر ان ایکشن ہوتا ہے۔ ایسے مایہ ناز کھلاڑی شاپنگ کے لئے جائیں تو دکاندار پیسے نہیں لیتے، چائے مشروبات ایرا وغیرہ سب فری دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان دونوں نے تعارف کرا دیا پھر بھی کہا نہیں مانتے! 8 ہزار نکالو، اس دن کا شاید ریٹ 8 ہزار نکالا گیا تھا۔ شکایت کرنے والے بڑے لوگ تھے اورشکایت بھی سوشل میڈیا پر کی تھی۔ آئی جی سندھ نے ایکشن لے لیا۔ یہ چاروں اندر۔ سکرنڈ تھانہ ہے ضلع بینظیر آباد (نواب شاہ) ہے۔ اسی حوالات میں گردن جھکا کر اور مونچھیں لٹکا کر کھڑے ہیں جس میں آنے والے ملزموں کو یہ ٹھاپیں اوردھپے لگایا کرتے تھے۔ حکام نے ایس ایچ اور اور محرر کو بھی معطل کر دیا ، ان کو کیا حصہ ملتا تھا؟۔ حصہ تو سنا ہے اوپر تک جاتا ہے۔ ایسے ملازم لاڈلے ہوتے ہیں، راج دلارے ہوتے ہیں، بڑوں کے وڈیروں کے۔ ان تک بات پہنچی، پوچھا گیا کتنی رقم کا معاملہ ہے۔ 8 ہزار کا بتایا تو جوا ب دیا اتنی تھوڑی رقم، اس پر سفارش کریں کیوں بے عزت کراتے ہو۔ یوں یہ ابھی قانون کا سامنا کریں اور چند دن کی معطلی، پھر ا سی جگہ ناکے پر تعینات ہونگے۔ سوال یہ ہے کہ مسروقہ مال برآمد ہو گیا تو متاثرین تک پہنچا یا نہیں پہنچا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کو اعلیٰ عدلیہ لکھنے سے روک دیا
قاضی فائز عیسیٰ اپنے ادارے میں قابلِ قدر اصلاحات لا رہے ہیں۔ عدالتوں میں وہ کچھ جس کو معمول سمجھا جاتا ہے مگر کہیں نہ کہیں دماغ میں آج کل موبائل فونز میں نوٹیفکیشن جیسی ہلکی سی ٹن ں ں۔۔کی آواز اٹھتی ہے۔ ایسی باریک چیزوں پر قاضی صاحب کی نظر پڑ جاتی ہے۔ ان کی طرف سے افسروں کو صاحب، صاحب کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ ناموں کے ساتھ حافظ اور حاجی کے لاحقے بھی اب استعمال نہیں ہو رہے۔ مائی لارڈ، یورآنر جو وکلا کا تکیہ کلام بن چکا ہوتا ہے۔ اسے بھی پاکستان کے قاضی القضاہ کی طرف سے منع کر دیا گیا۔ قاضی فائز عیسیٰ طویل عرصہ وکالت کے پیشے سے منسلک رہے۔ ان کی وکیل سے بلوچستان ہائیکورٹ میں براہِ راست چیف جسٹس کی تعیناتی ہوئی تھی۔ کچھ لوگ اس پر معترض ہوتے ہیں کہ تگڑی سفارش تھی۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی ہوئی تو تمام پی سی او ججز کو ہٹا دیا گیا۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے سارے جج فارغ ہو گئے۔ نئے جج وکلا میں سے لائے گئے۔ ان میں سے ایک نے چیف جسٹس بننا تھا سو قاضی فائز عیسیٰ بن گئے۔ آج وہ چیف جسٹس پاکستان ہیں۔ ان کو وکلا کی مشکلات کا، عدالتوں کے معاملات کا بخوبی علم ہے۔ ان کے چیف بننے کی راہ میں آگ کا دریا بھی آیا جسے عبور کر گئے۔ ان کے پاس کم و بیش ایک سال کا عرصہ تھا جو اب چند ماہ کا رہ گیا۔ ان کے سامنے مقدمات کا انبار ہے جس میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ ان کو وراثت میں ادھڑا ہوا عدالتی نظام ملا ہے۔ ممکنہ حد تک اصلاحات کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے نظام انصاف کے بارے میں یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ وکیل کے بجائے جج کر لیں۔ اور بھی بہت سے چیلنجز ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ ان کے والد قاضی عیسیٰ قائداعظم کے بااعتماد ساتھی تھے اور تحریک پاکستان کے کارکن و رہنما رہے ہیں۔ قاضی صاحب کی باریکیوں پر نظر ہے۔ لگے ہاتھوں عدالت کے عملے کے سرپر رکھی جناح کیپ اور اچے شملے والی پگڑیاں تو تبدیل کرا دیں۔ جناب کیپ کو عزت دینی ہے تو پھر جج صاحبان یا وکلا اس کا استعمال کریں۔
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت میں پگڑی پوش اس انداز سے گرز چیف صاحب کے کرسی پر بیٹھنے کے عمل کے دوران اوپر سے نیچے لاتا ہے جیسے اس کے ہاتھ میں ریموٹ ہے۔ عرض کرنے کا مطلب ہے کہ قاضی القضاءنقشِ کہن ہٹانے کی کوشش کریں۔
٭٭٭٭٭٭