منی بجٹ: اقتصادی منیجرز کی ناکامی
درست ہے کہ عوام کا حافظہ کسی دور میں کمزور ہوا کرتا تھا لیکن اس تیز رفتار مواصلاتی نظام میں عوام باشعور اور شہری ہر نینو سیکنڈ کی کوکھ سے جنم لینے والی ہر خبر سے بخوبی آگاہ رہتے ہیں۔ یہ آگاہی بھی ان کیلئے کرب و اضطراب ہی کا پیغام لاتی ہے۔ 2018ء میں جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا اور پہلا بجٹ پیش کیا تھا تو عوام کو یہ یقین دلایا تھا کہ پی ٹی آئی کی فلاحی انسانی ریاست میں پیش کیے جانے والے بجٹ کے بعد عوام کی شکست و خستہ کمر پر کسی منی بجٹ کا بوجھ نہیں لادا جائیگا ، آئی ایم ایف کے دباؤ کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائیگا۔ ٹیکس موصولی کے نیٹ ورک کو مضبوط اور مستحکم بنایا جائے گا ۔داخلی معیشت کے اضمحلال کو دور کیا جائے گا ۔ معیشت جو ماضی کی حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندیوں کی وجہ سے آکسیجن ٹینٹ میں آخری ہچکیاں لے رہی ہے، اسے ٹیکس نظام کو درست بنا کر اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے گا۔ لیکن اب تین برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد اس قسم کی اطلاعات زبان زد عام ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف شرائط کے تحت منی بجٹ لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نیز حکومت نے چوتھے ٹیکس قوانین ترمیمی آرڈیننس کو ہی بل میں تبدیل کر دیا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں محصولات کی وصولی کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس نظام کی اصلاح کیلئے 72 برسوں میں پی ٹی آئی سمیت کسی بھی حکومت نے کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جس ادارے کا کام ٹیکس دینے کے قابل افراد سے ٹیکس کی وصولی ہے، اُسکے اہلکاران ہی اُنہیں ٹیکس چوری کے ’مجرب نسخے‘ بتاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی بجائے ہر سال ہدف کی نسبت کمی واقع ہوتی ہے۔ کاروباری حلقوں کا نقطہ نظر ہے کہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کے بجائے مذکورہ محکمہ ٹیکس دہندگان کی تعداد کو بڑھانے کیلئے پالیسی مرتب کرے اور اگر ایسی پالیسی مرتب کرنے میں موجودہ حکومت میں کامیاب ہو گئی تو محصولات کی وصولی میں اگلے میزانیہ میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ منتخب عوامی جمہوری حکومتوں کا بجٹ غریب دوست اور عوام نواز ہوا کرتا ہے نہ کہ عوام بجٹ کے مندرجات سننے کے بعد اسے آدم خور بجٹ سے تعبیر کرنا شروع کر دیں۔ ویسے بھی جس بھی دور میں جب بجٹ کی آمد آمد کا اعلان کیا جاتا ہے تو عوام اس سے یونہی خائف اور سراسیما ہو جاتے ہیں جیسے کسی ہجوم میں خودکش حملہ آور کی اطلاع ہر فرد کو حواس باختہ کر دیتی ہے۔ سالانہ بجٹ کے چند ماہ بعد ہی جب منی بجٹ کا اعلان کیا جاتا ہے تو یہ اعلان بھی انہیں ریکٹر سکیل پر 8.5کے زلزلے کی شدت کے آفٹر شاکس کی طرح محسوس ہوتا ہے۔
ہر بجٹ میں اس امر کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ زرعی شعبے میں بہتری کیلئے اقدامات کیے جائیں گے، 8 برسوں سے یہ بات بہ تکرار کہی جاتی رہی ہے کہ بجٹ کا ہدف 50 لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانا ہے، سڑکوں کی تعمیر، چھوٹے تجارتی اداروں کیلئے سہولتیں بھی منشور میں شامل ہیں، نوجوانوں کیلئے ملازمتیں ، کسانوں کیلئے قرضے اور ٹیوب ویلز فلیٹ ریٹ بھی تقریباً ہر پارٹی کے انتخابی منشور میں شامل ہوتے ہیں۔ انتخابی مناشیر میں یہ بھی اعلان کیا جاتا رہا ہے کہ مزدوروں کو بھی اسمبلیوں میں نشستیں دی جائیں گی۔ ایک دور میں تو ایک برسراقتدار رہنے والی جماعت نے یہ بھی یقین دلایا تھا کہ آئینی عدالت قائم کی جائیگی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا 4.5 فیصد ہو گا۔ مزید برآں مسلم لیگ (ق) کے 2013ء کے انتخابی منشور میں سب سے زیادہ اہمیت توانائی کے جاری بحران کے خاتمے کو دی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تادم تحریر توانائی کے بحران نے وطن عزیز کی داخلی معیشت اور عام آدمی کے گھریلو بجٹ کو غیر متوازن بنا کر رکھا ہے۔
2018ء کے عام انتخابات کے انعقاد سے قبل بھی قابل ذکر سیاسی جماعتیں بلند بانگ دعووں پر مشتمل اپنے انتخابی منشور پیش کرتی رہیں۔ بادی النظر میں پی ٹی آئی کا انتخابی منشور دعوئوں کے لحاظ سے عوامی حلقوں کیلئے متاثر کن تھا۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ برسر اقتدار آتے ہی بیروزگار افراد کو ایک کروڑ نوکریاں اور رہائشی سہولت سے محروم شہریوں کو 50 لاکھ گھر دیئے جائینگے۔ حسن اتفاق کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو قائم ہوئے ساڑھے تین برس کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن انتخابی منشور میں شامل اُن کا یہ دعویٰ اور وعدہ آج بھی امیر خسرو کے زمانے کی ناریوں کی کہہ مکرنی کا روپ اختیار کر چکا ہے۔ سادہ لوح عوام اب بھی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید اگلے 18ماہ میں ایک کروڑ بیروزگار بیکاری کے چنگل سے آزاد ہو چکے ہوں گے اور 50 لاکھ بے زر، بے در اور بے گھر شہریوں کو رہائشی سہولتیں فراہم ہو چکی ہوں گی لیکن اقتدار کے ساڑھے تین برس گزرنے کے بعد اب اسد عمر پی ٹی آئی کے حامیوں کو اور خیر خواہوں کو یہ بتا کر مزید مایوسی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں کہ ’’حالات بہتر ہونے میں 15 برس تک مزید انتظار کرنا پڑے گا‘‘۔ اب اس پر بجز اسکے کیا کہا جائے ’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ عام آدمی کو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ’کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی‘۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے اقتصادی منیجرز بھی اب تک واضح الفاظ میں یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ عام آدمی کو ارزاں نرخوں پر رہائشی سہولیات دینے کیلئے انہوں نے کیا منصوبہ بندی کی ہے۔ اتنے اہم مسئلے سے کیا محض اس لیے تو صرف نظر نہیں کر لیا گیا کہ حکومت میں شامل وزرائ، مشیروں، ترجمانوں اور وکلائے صفائی کیلئے رہائشی سہولت کبھی مسئلہ نہیں رہی جبکہ عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ ہی رہائشی سہولت کا حصول ہے۔ پی ٹی آئی کے وزرائے خزانہ اور ان کے دیگر ساتھی یہ نوید سعید سناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ روزگار ، علاج ، انصاف ، تعلیم اور رہا ئش کاحصول ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اس بنیادی حق کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کیا مربوط اقدامات کیے گئے ہیں، وہ ابھی تک پردۂ غیب میں ہیں۔ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ایک فلاحی جمہوری ریاست میںتمام ریاستی ادارے رہائش کے بنیادی شہری حق کی فراہمی میں مدد دینے کیلئے بھر پور کردار ادا کرتے ہیں اور اسے ہر شہری کا بنیادی حق تسلیم کرتے ہیں ۔مہذب اور متمدن ممالک میںشہریوں کو رہائش کی بنیادی سہولت فراہم کرنے کیلئے ارباب حکومت جملہ ریاستی وسائل اور ذرائع کو برئوے کار لانے لانا اپنا فرض منصبی جانتے ہیں ۔ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کو سردوگرم موسموں کی چیرہ دستیوں اور ستم رانیوں سے تحفظ کیلئے کسی نہ کسی عنوان سے چاردیواری اور چھت کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔اس ضمن میں انہیں اُن مہیب مشکلات اور جان لیوا مصائب سے دو چار نہیں ہونا پڑتا جس کا سامنا پسماندہ ، ترقی پذیر ، غریب اور قلیل الوسائل ملک کو کرنا پڑتا ہے جسے عمران خان ریاست مدینہ قرار دیتے نہیں تھکتے۔ گزشتہ روز ہی انہوں نے اسلامی سکالر شیخ حمزہ یوسف سے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے اپنے اس عزم کو پھر دہرایا کہ ’ہمارا مقصد لوتگوں کو غربت سے نکالنا، دولت پیدا کرنا اور اسے پھیلانا، اشر افیہ اور مافیازکی اجارہ داری کا خاتمہ ہے، میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواہش مند ہوں۔ ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں صرف ایک فیصد عوام معیاری تعلیم تک رسائی رکھتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ یہ لرزہ خیز انکشاف کر کے عوام کے کسی درد کی دوا اور کسی زخم کیلئے سامانِ اندمال فراہم کر سکتے ہیں۔ کیا انکے اس فرمودے سے عام آدمی مطمئن ہو سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامی فلاحی ریاست کے وسائل بحیثیت وزیراعظم عمران خان کے دستِ قدرت میں براجمان ہوں اور سیاست اور وسائل پر مافیاز کا راج اور قانون کی حکمرانی پر اشرافیہ کا قبضہ ہو‘ اب وہ محض یہ انکشاف کر کے عوام کو مطمئن نہیں کر سکتے کہ وسائل پر مافیاز قابض ہیں اور عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔