پیپلز پارٹی کا 55 واں یوم تاسیس
اسی مہینے کی 30 تاریخ کو آج سے پچپن سال قبل تشکیل پانے والی پیپلز پارٹی آج اپنا یوم تاسیس منا رہی ہے مگر ’’پارسائوں‘‘ کے خوف سے بے نیاز اس پارٹی کے ’’رندوں‘‘ نے بھی اب آسودگی والا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ایوب خاں کے جرنیلی مارشل لاء کے سائے میں اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنے والے سابق وزیر خارجہ اور ایوب خاں کی تشکیل کردہ کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل ذوالفقار علی بھٹو کے دل میں وزارت سے مستعفی ہونے کے بعد اپنی پارٹی قائم کرنے سودا سمایا تھا جس کیلئے انہوں نے ’’سٹیٹس کو‘‘ والی روایتی سیاست کے بجائے انقلابی سیاست کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے اپنی سیاست کے آغاز ہی میں ایوب خاں سے بغاوت کا تاثر پیدا کر کے عوام میں بہت جلد مقبولیت حاصل کر لی چنانچہ جب وہ وزارت سے مستعفی ہو کر بذریعہ ٹرین لاہور آئے تو عوام کے جم غفیر نے ان کا والہانہ استقبال کیا جس سے ان کے دل میں عوام کا مقبول لیڈر ہونے کا زعم گھر کر گیا۔ نئی پارٹی کے لئے انہوں نے لاہور میں ہی مشاورت کا عمل شروع کیا اور پھر -30 نومبر 1967ء کو ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر تین چار سوافراد کے اجتماع میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے نئی پارٹی تشکیل دینے کا اعلان کر دیا اور اجتماع میں شامل لوگ پیپلز پارٹی کے بنیادی ارکان قرار پائے۔ ان میں میرے دوست افتخار احمد (فتنہ) بھی شامل تھے جبکہ ملک حامد سرفراز کو بھی اس اجتماع میں شرکت کے ناطے پیپلز پارٹی کا بنیادی رکن ہونے کا اعزاز ملا، چونکہ اس اجتماع میں لیفٹسٹ اور سوشلسٹ حضرات کی اکثریت تھی اس لئے انکے ساتھ مشاورت کے عمل میں پیپلز پارٹی کا منشور اور ماٹو بھی سوشلسٹ بنیادوں پر استوار ہوا جس کا بنیادی نعرہ ’’اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری منزل ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ طے پایا۔ اس طرح ایک جاگیردار بھٹو نے اپنی سیاست کیلئے سوشلزم کے راستے کا انتخاب کیا۔ ان کا یہی نعرہ پیپلز پارٹی کی جڑیں عوام کے اندر پھیلانے کا باعث بنا مگر اس پارٹی کے بنیادی ارکان اور کلیدی عہدیداران جے اے رحیم اور معراج محمد خاں کی پارٹی بدری کے بعد فاروق لغاری اور ان کی قبیل کے دوسرے پارٹی عہدیدار پارٹی کے تنظیمی معاملات پر غالب ہوئے تو پیپلز پارٹی کا سوشلزم کا نعرہ اسلامی سوشلزم میں تبدیل ہو گیا اور جاگیرداری نظام کے خاتمہ کا بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کا خواب بھی ادھورا رہ گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ایک نوزائیدہ پارٹی کے پلیٹ فارم پر بے شک اپنے سوشلزم کے نعرے کی بنیاد ہی 1970ء کے انتخابات میں اس پارٹی کی صرف تین سال کی عمر میں مغربی پاکستان میں بے مثال کامیابی حاصل کی اور بڑے بڑے سیاسی برج الٹاکر قومی سیاست کو ایک نئے دھارے میں داخل کر دیا۔
اگر یحییٰ خاں کی جرنیلی آمریت میں ملک و قوم کو سانحۂ سقوطِ ڈھاکہ سے دوچار نہ ہونا پڑتا تو قومی اسمبلی کی اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو ملک کی پہلی منتخب جمہوری حکومت والا اقتدار مل جاتا اور اس صورت میں ذوالفقار علی بھٹو کو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا پڑتا۔ ملک دولخت ہوا تو باقیماندہ پاکستان میں مسندِ اقتدار پر بیٹھنا ذوالفقار علی بھٹو کا مقدر بن گیا اور شوقِ اقتدار میں انہوں نے سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پھر صدرمملکت کا تاج پہننا بھی بسروچشم قبول کر لیا جس کیلئے انہیں اپنی پارٹی کے اندر لگنے والے نعرے ’’بھٹو جیوے ، صدر تھیوے‘‘ نے پہلے ہی اقتدار کے اس راستے کیلئے قائل کر لیا تھا۔ یہ بلاشبہ بھٹو صاحب کی خوش بختی تھی کہ انہیں اقتدار کی منزل تک پہنچنے کیلئے لمبی چوڑی کٹھنائیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا جبکہ مقبول عوامی لیڈر کا اعزاز بھی انہوں نے اپنی سیاست کی ابتداء میں ہی حاصل کر لیا۔ اس سے ان پر خوداعتمادی کا رنگ بھی وافر مقدار میں چڑھ گیا جس نے قومی سیاست میں ایک نئے کلچر کو جنم دیا جس میں بے باکی کے نام پر بدتمیزی کی کچھ زیادہ ہی آمیزش ہو گئی۔ اس کلچر نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے دلوں میں بھی خاصی رونق لگائی جن کے روّیوں نے پیپلز پارٹی کے اس کلچر کو جیالا کلچر کا نام دے دیا۔ اس کلچر میں سول سروسز سمیت کسی بھی شعبے میں عزتِ نفس کو پائوں تلے روندنا جیالا کلچر والی اس پارٹی کا معمول بنا لیا گیا چنانچہ 70ء کی دہائی والا یہ دور ہی درحقیقت نئے پاکستان کی بنیاد بنا تھا جبکہ اس کلچر نے سیاست میں بے ہودہ محاذ آرائی کے راستے نکالے جس میں قومی سیاستدانوں کے نام بگاڑ کر انہیں بدتمیزی کے ساتھ پکارا جانے لگا۔
بے شک یہ سیاست کا ایک قطعی نیا رنگ تھا جس میں روایتی سیاست کا دم بھرنے والے سیاسی قائدین کا ایڈجسٹ ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتا تھا چنانچہ گھمبیر ہوتی سیاسی فضا نے 1977ء کے انتخابات کے موقع پر انٹی بھٹو سیاست کے دھڑے میں شامل تمام سیاستدانوں کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے کی فضا بنا دی جسے پاکستان قومی اتحاد کا نام دیا گیا اور اس پلیٹ فارم پر شروع کی گئی انٹی بھٹو تحریک سوشلزم پر مبنی پیپلز پارٹی کے منشور کی بنیاد پر تحریک نظامِ مصطفی کے قالب میں ڈھل گئی۔ اس تحریک میں بھٹو حکومت کی سیاسی مخالفین کو کچل دو والی پالیسی کے باعث تشدد کا عنصر داخل ہوا تو ملک میں عملاً خانہ جنگی کی فضا قائم ہو گئی جس سے بھٹو ہی کے مقرر کردہ آرمی چیف جنرل ضیاء کو جمہوریت کی پٹڑی ٹریک سے اتارنے اور ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کرنے کا موقع مل گیا جنہوں نے پی این اے کے نظام مصطفیٰ والے منشور کو اپنا کر تحریک نظام مصطفیٰ کے سارے پس پردہ مقاصد بھی اجاگر کر دیئے۔ اس بات پر ملک میں سیاسی محاذ آرائی کا نیا سلسلہ شروع ہوا اور پیپلزپارٹی کے جن جیالوں کو اپنے بدتمیزی کلچر میں کبھی گرم ہوا کے کسی جھونکے کا تصور بھی خواب میں نہیں آیا ہوگا، انہیں قید کوڑوں اور پھانسیوں کے عمل سے گزرنا پڑا۔ ان کیلئے یہ عمل ضیاء کے مارشل لاء کے پورے دور میں جاری رہا چنانچہ سیاسی کارکنوں پر ریاستی تشدد کے اس طرزعمل نے مارشل لاء مخالف سیاسی پلیٹ فارم ایم آر ڈی کی بنیاد رکھی جس میں پیپلزپارٹی کے ساتھ تحریک استقلال، جمہوری پارٹی اور اے این پی جیسی وہ جماعتیں بھی دم بھرنے لگیں جو پی این اے کے پلیٹ فارم پر بھٹو آمریت کا جنازہ نکالنے کے جتن میں جمہوریت کا جنازہ نکالنے میں معاون بنی تھیں۔ بے شک ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر شروع ہونیوالی مزاحمت کی سیاست نے جس کا آغاز بھٹو کی پھانسی کے ردعمل میں ہوا تھا، قومی سیاست میں جمہوریت کی عملداری کے لئے ایک نیا جذبہ پیدا کیا۔ یہ سیاست قید، کوڑے، پھانسیوں اور خودسوزیوں کی کئی داستانیں اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے جس میں قید، کوڑے، پھانسیوں کے زیادہ تر اعزازات پیپلزپارٹی کے جیالے کارکنوں کے نام کے ساتھ ہی منسوب ہوئے۔ یقیناً یہی اعزازات محترمہ بینظیر بھٹو کے اقتدار کی سیڑھی بنے اور پھر جیالا کلچر سے ’’خوفزدہ سٹیٹس کو ‘‘والوں کے مشق ستم کا بینظیر بھٹو کو بھی نشانہ بننا پڑا۔
بے شک محترمہ کی اس قربانی نے ہی ان کے شوہر نامدار آصف علی زرداری کے لئے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم پر اقتدار کی راہ ہموار کی مگر آپ لاکھ جذباتی باتیں کریں، پیپلزپارٹی کے جیالا کلچر کی تدفین آصف علی زرداری ہی کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس ہی اس پارٹی کے جیالا کلچر کو ابھارنے اور تقویت پہنچانے کا باعث بنتا رہا ہے چنانچہ بھٹو مرحوم کی برسی کی طرح پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس کی مرکزی تقریب کا اہتمام بھی پہلے گڑھی خدا بخش میں ہی کیا جاتا رہا ۔پھر محترمہ بینظیر بھٹو کی اقتدار کی منزل نے انہیں کئی قسم کی مفاہمتوں کے راستے دکھائے جس میں پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس کے اجتماعات سکڑنا اور محدود ہونا شروع ہوگئے۔ محترمہ کے اقتدار میں پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس پہلے قذافی سٹیڈیم کے کلچرل کمپلیکس میں محدود ہوا، پھر اسے الحمرا ہال اور پھر ایک فائیو سٹار ہوٹل میں سمیٹا گیا جبکہ آصف علی زرداری کے عہد اقتدار نے پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس کو پارٹی کے اندر سے جیالا کلچر تھپکیاں دے کر سلانے کیلئے استعمال کرنے کے مفاہمانہ راستے نکال لئے۔ آج پیپلزپارٹی میں جیالا کلچر والی ہر نشانی ماشاء اللہ پورے جذبے کے ساتھ کھرچ کھرچ کر مٹائی جاچکی ہے چنانچہ سندھ کے سوا ملک بھر میں بھٹو والی مقبول سیاست اس پارٹی کے اندر رہنے پر شرمندہ ہوتی اپنے راستے نئے پاکستان کی داعی موجودہ حکمران تحریک انصاف کی جانب نکال چکی ہے۔ گویا تحریک انصاف میں جیالا کلچر اپنی ہر علامت سمیت جلوہ گر نظر آتا ہے جیسے…؎
تیرا خیال بھی تیری طرح مکمل ہے
وہی شباب ، وہی دل کشی، وہی انداز
بالخصوص پنجاب میں پیپلزپارٹی کا سارا ’’خام مال‘‘ تحریک انصاف کے دامن کے ساتھ لپٹ کر اس کیلئے ’’دامن کو ذرا دیکھ ، ذرا بند قبا دیکھ‘‘ کے طعنوں کا اہتمام کرا رہا ہے۔ آج پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس کا مرکزی اجتماع بھی پشاور میں ہورہا ہے اور لاہور میں جہاں پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی گئی ، ایک ضمنی انتخاب بھی پیپلزپارٹی کے گلے میں پھانس بن کر اٹکا نظر آتا ہے۔ جس سے تحریک انصاف کی طرح پیپلزپارٹی بھی جان چھڑانے کے مختلف حربے اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔ ان حربوں میں اگر ووٹ خریدنے والی ویڈیوز لیک کرنا بھی الیکشن کمشن کو نون لیگی امیدوار کی نااہلیت کیلئے راستہ دکھانے کی حکمت عملی نظر آتی ہے تو اس پر تعجب کیسا؟