منگل‘24 ربیع الثانی 1443ھ30نومبر2021ء

پی ڈی ایم کا استعفوں اور لانگ مارچ کا فیصلہ اپریل تک مؤخر ہونے کا امکان
لگتا ہے پی ڈی ایم کے نصیب میں لانگ مارچ اور دھرنا نہیں ہے۔ ورنہ جب سے یہ اتحاد دھرنے اور لانگ مارچ کا اعلان کرتا پھرتا ہے‘ اس حساب سے تو اب تک کئی دھرنے اور لانگ مارچ ہو جانے تھے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کا بوریا بستر گول ہوتا یا نہیں‘ یہ علیحدہ بحث ہے۔ پی ڈی ایم جب بھی کسی احتجاجی پروگرام کا اعلان کرتی ہے‘ اس کا سب سے پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی بڑی بڑی پارٹیاں آپس میں دست و گریبان ہو جاتی ہیں۔ معلوم نہیں یہ ٹوپی ڈرامہ ہوتا ہے یا حقیقی جنگ۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) تو ہمیشہ تحریک چلانے کے موقع پر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے نظر آتے ہیں۔ اب کی بار گرچہ تحریک کے مسئلہ پر تو نہیں مگر لاہور کے ضمنی الیکشن کی وجہ سے دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر برس رہی ہیں اور سیاسی میدان میں…؎
ہوا سے موتی برس رہے ہیں
گھٹا ترانے سنا رہی ہے
والی حالت پھر نظر آرہی ہے۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب پی ڈی ایم کی طرف سے دسمبر میں استعفوں دھرنے‘ لانگ مارچ اور جلسوں کی نوید سنائی دی گئی تھی۔ اب اس صورتحال میں ایک بار پھر استعفوں اور لانگ مارچ کا فیصلہ اپریل تک مؤخر ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ یعنی ٹائیں ٹائیں فش۔ 4 ماہ تک حکومت کو اپوزیشن اتحاد سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ اس سے اچھی بات حکومت کیلئے اور کیا ہوگی۔
٭٭……٭٭
بھارتی عدالت میں تیزرفتار سماعت کا ریکارڈ‘ ایک ہی روز میں ملزم کو عمرقید کی سزا
یہ ریکارڈ واقعی قابل تعریف ہے۔ ایسا انصاف ہر جگہ ہوتا نظر آنا چاہئے۔ ورنہ ایک نسل گزر جاتی ہے مقدمے بازی میں اور فیصلہ نہیں ہوتا۔ اب بھارتی ریاست بہار کی عدالت نے 8 سالہ بچی سے زیادتی کے ملزم کے خلاف مقدمہ ایک ہی روز میں سماعت مکمل کرا کے عمر قید اور جرمانے کا فیصلہ سنا دیا جو انصاف کی نئی داستان رقم کرے گا۔ ہو سکتا ہے اس سے دوسری عدالتوں کی بھی قوت فیصلہ جاگ اٹھے اور وہ بھی ایک دن میں کرکے زیادتی جیسے گھنائونے کیسوں کا فیصلہ جلد از جلد کرکے ریکارڈ قائم کریں۔ خاص طورپر اگر ہمارے ہاں بھی عدالتیں ایسے ہی ریکارڈ توڑ سماعت کے ریکارڈ قائم کریں تو ہمارے ہاں بھی کئی ریکارڈ قائم ہونگے اور عدالتوں پر مقدموں کا بوجھ بھی کم ہوتا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نوعمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو قانے میں بھی مدد ملے گی۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ ایسے فوری نوعیت کے سنگین معاملات کے کیس بھی کئی کئی ماہ اور برس ہا برس چلتے رہتے ہیں۔ ایسے سنگین نوعیت کے مقدمات پر تو بروقت فیصلہ کرنا بہت ضروری ہے تاکہ قانون کا خوف لوگوں کو اس قسم کی حرکات سے روکے۔ دعا ہے اب ایسی ہی روایت ہمارے ہاں بھی جلد از جلد قائم ہو اور فیصلے ایک روز میں کر کے انصاف کا بول بالا ہو۔
٭٭……٭٭
لاہور لاہور اے‘ یہاں آکر ہمیشہ پیار ملا: ثانیہ ملک
یہ بات تو بالکل سچ ہے کہ لاہور بے مثال شہر ہے اس لئے جو یہاں آتا ہے‘ اسے ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔ اس کی محبت اور اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ یہی حال کرکٹر شعیب ملک کی اہلیہ ثانیہ مرزا کا بھی ہے جو شادی کے بعد جب پہلی مرتبہ پاکستان آئیں تو یہاں کے لوگوں کی محبت دیکھ کر دل و جان سے لاہور پر فدا ہو گئی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی ایسی محبت نہیں تھی جس کا اظہار لاہوریوں نے کیا۔ اب کافی عرصہ بعد ایک بار پھر پاکستانیوں کی بہو اور لاہوریوں کی بھابی لاہور آئی تو یہاں انہیں ایک بار پھر اسی طرح محبت‘ عزت اور احترام ملا جس پر وہ پہلے بھی فدا ہو چکی ہیں۔ گزشتہ روز ایک نجی شاپنگ مال میں جب یہ خوبصورت جوڑی آئی تو پرستاروں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کا جی جان سے والہانہ استقبال کیا جس کی ثانیہ مرزا نے تعریف کرتے ہوئے روایتی جملہ کہا کہ لہور لہور اے۔ یہاں آکر ہمیشہ پیار ملتا ہے۔ بے شک لاہور محبت کرنے والوں زندہ دلان کا شہر ہے۔ یہاں کے باسی ہر مہمان کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کیا کرتے ہیں۔ خاص طورپر اگر مہمان ان کی اپنی عزت ہو تو پھر وہ اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ جبھی تو لوگ کہتے ہیں جنے لہور نئیں وکھیا او جمیا ای نئیں۔ دنیا میں لاہور کے چرچے اگر ہیں تو وہ ایسے ویسے نہیں ہیں۔ ان میں بہت بڑی سچائی پوشیدہ ہے۔ جبھی تو دنیا بھر میں لاہور کے اُچے برجوں کی دھوم ہے اور نئی ریسیاں نے لہور دیاں کے ہر جگہ چرچے ہیں۔
٭٭……٭٭
بھارتی ریاست بندیل کھنڈ میں آبی قلت نے شادیاں روک دیں
بظاہر پانی کی قلت کا شادی کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق تو نہیں بنتا مگر بھارتی ریاست بندیل کھنڈ کے گائوں میں پانی کی شدید قلت نے ایک یہ مسئلہ بھی کھڑا کر دیا ہے کہ وہاں پانی کی قلت کی وجہ سے 40 فیصد مرد کنوارے ہیں۔ غالباً باہر سے کوئی بھی اپنی لڑکی کا بیاہ اس گائوں میں نہیں کرتا جہاں پانی ہی دستیاب نہیںجبکہ گائوں والے لڑکیوں کی شادی دوسرے علاقوں میں کرتے ہیں جہاں پانی دستیاب ہو۔ یوں گائوں کے نوجوان ’’طوطارام کنوارہ رہ گیا‘‘ والا گانا گا کر گزارا کرتے ہیں۔ اس پر ہمیں زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ بہت جلد یہ حال ہمارا بھی ہونے والا ہے۔ مگر اس سے پہلے جنوبی افریقہ کے مرکزی شہر کیپ ٹائون میںبھی یہی قیامت برپا ہے جہاں پانی کی راشن بندی ہو چکی ہے۔ ارب پتیوں کا یہ شہر اب صحرا بن رہا ہے۔ سوئمنگ پول اور تالاب خشک پڑے ہیں۔ آبی ذخائر صرف 20 فیصد رہ گئے ہیں جس پر آبی مارشل لاء نافذ ہے۔ نہانے کیلئے فی کس صرف 2 منٹ پانی ملتا ہے۔ کیپ ٹائون دنیا کا پہلا ڈے زیرو شہر بن گیا ہے۔ ہمارے ہاں کراچی‘ کوئٹہ اور لاہور جبکہ بھارت میں بنگلور کے علاوہ دنیا کے 119 شہر اس لائن میں کھڑے ہیں اس لئے ہمیں ابھی سے فکر کرنا ہوگی ورنہ ہمارے ہاں بھی پانی کی قلت کی وجہ سے شادیاں رک سکتی ہیں کیونکہ جب نہانے دھونے کیلئے پانی نہیں ہوگا‘ شادی کی فکر کسے ہوگی۔ ویسے بھی ہمارے ہاں غسل ضروری ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارے حکمرانوں کو ابھی سے پانی کی بچت کے منصوبوں پر کام کرنا ہوگا اور ہر گھر کے باہر پانی کا میٹر لگانا ہوگا تاکہ جتنا پانی خرچہ ہے اس کا بل ادا کریں۔ تب جا کر پانی کا ضیاع روکا جا سکتا ہے۔
٭٭……٭٭