پیپلز پارٹی کے 53سال
30نومبر اور یکم دسمبر 1967کو منعقدہ دو روزہ کنونشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میںلایا گیا تھا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی تاسیس کے حوالے سے اعلان کردہ اس دوروزہ کنونشن کے باعث ایوب خان حکومت نے لاہور ضلع اور لاہور شہر میں دفعہ 144کا نفاذ کردیا کسی عوامی جگہ پر اجتماعی مجمع پر اس پابند ی کے سبب، یہ دو روزہ کنونشن ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائشگاہ 4کے گلبرگ کے بائیں باغ میں ایک شامیانہ لگا کر منعقد کیا گیا تھا ۔ اس تاریخی موقع پر کنونشن کی جانب سے ملک حامد سرفراز نے ڈاکٹر مبشر حسن کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے مشکل لمحات میں نہ صرف اعلیٰ معیار کی ذاتی میزبانی دکھلائی بلکہ ہر قسم کے حالات کے دبائو کا بھی پورہ خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا ۔ دونوں دن ذوالفقار علی بھٹو نے پارٹی چیئرمین کی حیثیت سے کنونشن کی صدارت کی ۔ پارٹی کا حتمی نام طے کرنے کے سلسلے میں شرکائے اجتماع کے سامنے تین نام پیش کیے گئے ۔ (1)پیپلز پراگریسو پارٹی ،(2)پیپلز پارٹی (PP)،(3) پیپلز سوشلسٹ پارٹی آ ف پاکستان (SPP) کنونشن کی جانب سے تینوں مسترد کردیئے گئے ۔ اتفاق رائے سے نئی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (PPP)سے معرض وجود میں آئی ۔ 53سال قبل جب لاہورمیں اس پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو ہم ابھی طالب علم تھے۔ لاہور میں عوامی جوش وخروش کا کیا حال تھا ہمیں تو اخبارات کے ذریعے ہی خبریں مل رہی تھیں ۔ البتہ ان دنوں شجاع آباد اور ملتان جیسے یکایک گہری نیند سے جاگ اُٹھا تھا۔ اچانک سب کی آنکھیں کھل گئی تھیں ۔ انہیں اپنے حقو ق حاصل کرنے کار استہ صاف نظرآنے لگا تھا ۔ کیا جوش وخروش تھا ؟ کیا جذباتی اُبال تھا جو اس علاقے کے نوجوانوں میں تھا ۔ میرے تایاحاجی عبداللطیف (مرحوم)رانا تاج احمد نون کے بہت گہرے دوست تھے ۔ شجاع آباد میں سب سے پہلے رانا تاج احمد نون نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو ان کا ڈیرہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے بھرتا چلاگیا ۔ میں بھی اکثر اپنے
تایا کے ہمراہ ان کے ڈیرے پر جاتا تو ہر جانب سے ذوالفقار علی بھٹی کے نعرے گونجتے ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عام آدمی کو بولنا آیا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس علاقے میں بائیں بازو کی جماعتیں کام نہیں کررہی تھیں ۔ یہاں کام کرنے والی بائیں بازو کی جماعتوں کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔ سید قسور گردیزی بائیں بازو کی تحریک کے روح رواں تھے ۔ ایوب خان کے دور میں انہوں نے صرف جیل ہی نہیں کاٹی بلکہ اپنا سارا کاروبار بھی تباہ کرلیا تھا ۔ ان کے ساتھ عطاء اللہ ملک اور حبیب پاسلوی جیسے بے لوث کارکن بھی تھے ۔ لیکن جاگیردارانہ سماج کی جکڑ بندیوں میں پھنسے اس علاقے میں بائیں بازو کی یہ تحریک اپنا مقام نہیں بنا سکی تھی ۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ یہ تحریک صرف مزدوروں ، کسانوں اور دوسرے محنت کش طبقوں کے حقو ق کی بات کرتی تھی ۔ وہ پڑھا لکھا درمیانہ طبقہ جو ہمیشہ بالائی طبقوں میں شامل ہونے کا خواہش مند رہتا ہے ۔ اس تحریک میں اپنے لیے کوئی کشش محسوس نہیں کرتا اب جو پیپلز پارٹی سامنے آئی تو اس طبقے کو احساس ہوا کہ یہی جماعت ہے جو اس کی آرزوئوں اور اُمنگوں کی ترجمانی کرسکتی ہے ۔ اس میں ذوالفقار علی بھٹو کی دلکش شخصیت کا کرشمہ بھی شامل تھا اور یہ دلکشی ایوب خان کے زمانے سے ہی چلی آرہی تھی ۔ تاشقند نے اور بھی آ گ بھڑکا دی تھی ۔ عام محنت کش بھی اس درمیانے طبقے کے ساتھ ہو لیا تھا ۔ اسے بھی اپنی آواز مل گئی تھی ۔ چنانچہ ادھر پیپلزپارٹی آئی ، اور اُدھر ملتان اورسارے سرائیکی وسیب پر چھاگئی ۔
شجاع آباد اور ملتان میں کون ایسا ہو ش مند نوجوان تھا جو اس کے ساتھ نہیں تھا ۔ رانا تاج احمد نون ، اشفاق احمد خان ، ممتاز اعوان ، محمود بابر ، ساجد پرویز اور کالج کے لڑکوں میں انوار احمد ، سرفراز مرحوم اور میرا بھائی قسور سعید مرزا اور اصغر ندیم سید جیسے نوجوان اس پارٹی کے ہر اوّل دستہ بن گئے۔ خواتین کو حسینہ بیگم نے منظم کیا ۔ اس علاقے کی خواتین کیلئے یہ پہلا موقع تھا کہ کسی سیاسی جماعت نے ان کی طرف توجہ کی تھی ۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی چکا چوند میں دوسری جماعتوں کی روشنی ماند پڑگئی ۔ عام انتخابات میں بھلا کوئی دوسری جماعت پیپلز پارٹی کا کیا مقابلہ کرسکتی تھی مرحوم رانا تاج احمد نون اور عباس شاہ گردیزی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ رانا تاج احمد نون نے تو مخدوم سید حامد رضاگیلانی کو زبردست شکست سے دوچار کیا ۔ ان کی انتخابی مہم کا یہ حال تھا کہ جہاں تک ان کی بگی جاسکتی تھی وہاں جا کر ان کی مہم ختم ہوجاتی تھی اور پھر قسور سعید مرزا جیسے قابل فخر نوجوان اپنی بہترین صلاحیتوں کے ذریعے اس مہم کو چار چاند لگادیتے جس شام الیکشن کا نتیجہ آنے والا تھا اس شام رانا تاج احمد نون اپنے گھر بستی مٹھو آرام سے بیٹھے تھے انہیں ہار جیت کی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔ نتائج آنا شرو ع ہوئے اورہم نے کامیاب اُمیدواروں میں ان کا نام دیکھا تو اپنے تایا عبداللطیف حاجی کو بتایا کہ ’’رانا صاحب ‘‘جیت گئے ۔ تو انہوں نے فوری رانا صاحب کو مبارکباد کا فون کیا وہ حیران پریشان ۔۔۔اچھا ۔۔۔۔؟ میں جیت گیا ؟ میرے تایا حاجی عبداللطیف سے ان کی بڑی بے تکلفی تھی ۔ اکثر سفر میں یہ اُن کے ساتھ ہوتے اُن کا مذاق اُڑایا کرتے تھے کہ ’’رانا صاحب ‘‘ کو ان حلقوں سے ووٹ ملے جہاں وہ گئے نہیں تھے ۔ یہ تھی پیپلز پارٹی کی مقبولیت اور اِ س کی شہرت یہ تو ملتان ، شجاع آباد کی ایک مثال ہے ۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ پورے پاکستان میں ایسا ہی ہوا۔ اس وقت یہ پارٹی پڑھے لکھے نوجوانوں کی امنگوں کی ترجمان تھی ۔ اس کا ایک نمونہ ہم نے بھٹو صاحب کے شجاع آباد میں ایک جلسے میں دیکھا یہ ایوب خان کی حکومت تھی بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی بنا لی تھی ۔ تمام انتخابات تھے پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم زوروشور سے جاری تھی ۔ رانا تاج احمد نون قومی اسمبلی اور چوہدری علی بہادر ایڈووکیٹ صوبائی اسمبلی کے اُمیدوار تھے جو اب میونسپل کمیٹی کا دفتر ہے ۔ یہاں پارک تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو کوثر نیازی نے یہاں جلسے سے خطاب کیا ۔ یہ شجاع آبا د کا تاریخی جلسہ تھا ۔ عوام کا ایک سیلاب تھا ۔ ہر شخص’’ بھٹو صاحب ‘‘کو دیکھنا چاہتا تھا ۔ اب جو سوال ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ آخریہ پارٹی ایسی کیوں نہ رہی ؟ پورے پاکستان کی واحد نمائندہ جماعت صرف ایک صوبے تک کیوں محدود ہوگئی ؟ سیاسی مبصر ین تو اس کا تجزیہ کررہے ہیں لیکن اس پارٹی کے پرانے کارکنوں کو بھی ٹھنڈے دل سے اس سوال پر غور کرنا چاہیے اور نوجوان قیادت کو پارٹی کی اساسی دستاویزوں یا فائونڈنگ پیپرز کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اسے یہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ بنیادی اصولوں سے انحراف کے باوجود ہمارے اصل حکمران اس جماعت پر کبھی بھروسہ نہیں کریں گے۔ انہیں ہمیشہ یہ خوف کھاتا رہے گا کہ یہ جماعت عام آدمی کی آرزوئوں اور اُمنگوں کی ترجمان ہے اور آخر کار وہ مقتدر حلقوں کے بجائے عام آدمی کے حقو ق کا تحفظ ہی کرے گی اور یہی وہ پارٹی ہے جس سے ترقی پسند روشن خیال اور وسیع المشرب سیاست کی توقع کی جاسکتی ہے۔