کرونا کی دوسری لہر اور سیاست

عالمی سطح پر کرونا وبا کی دوسری لہر کا آغاز ہوچکا ہے۔ پاکستان بھی دوسرے ممالک کی طرح متاثر ہورہا ہے اور روز بروز شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں اموات کی شرح بتدریج بلند ہورہی ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ دنیا کو بالخصوص پاکستان کو اس موذی اور متعدی مرض سے محفوظ فرمائے۔ کرونا کی دوسری شدید لہر سے شکوک و شبہات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ ماہرین طب اس وبا کو نہ صرف حقیقت بتا رہے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس سے محفوظ رہنے اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا درس دے رہے ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے سیاستدان اسے اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں کو ناکام بنانے کے لئے ایک موثر ہتھیار اور ہتھکنڈا بتا رہے ہیں۔ حالانکہ وہ حقیقت جان چکے ہیں کہ کرونا کی یہ دوسری لہر عالمی وبا ہے اور یہ شدید ہے۔ اسی لیے دیکھا گیا ہے کہ اپوزیشن کے تمام رہنمائوں نے نہ صرف ماسک کا استعمال جاری رکھا ہوا ہے بلکہ ذاتی اور بہت قریبی اجتماعات پر ہاتھ ملانے سے بھی پرہیز کرتے ہیں اور ایس او پی پر عمل کیا جاتا ہے۔ تازہ ترین احتیاطی تدابیر کی ہدایات سابق صدر آصف علی زرداری کی بیٹی کی رسم منگنی اور شادی کی دیگر رسومات کے حوالے عام لوگوں تک پہنچ چکی ہیں جس میں شرکاء کو ہدایت کی گئی کہ وہ شمولیت سے پہلے کرونا نیگیٹو کا سرٹیفکیٹ بھجوائیں تاکہ ان کی شرکت کی کلیرنس جاری ہوسکے مگر اپوزیشن جلسوں کے انعقاد پر بضد ہے۔ دوسری طرف حکومت نے بھی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ انتخابی جلسے ہوں یا پھر جنازوں کے جلوس جاری ہیں مذہبی اجتماعات حکومت روک نہ سکی۔ گلیوں، چوک،چوراہوں پر اسی طرح چوپالیں سجی ہوئی ہیں۔ ہمارے دیہاتوں میں تو کرونا کا کوئی تصور ہی نہیں اور شہروں سے آئے ہوئے ایسے لوگوں کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے جو ماسک لگا کر کرونا سے بچائو کی اس عالمی تحریک کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔عالمی سطح پر کسی بھی وبا کی پہلی،دوسری اور تیسری لہر کا جائزہ لیں تو ہر شخص کو یقین کرنا ہوگا کہ یہ کوئی افوا یا پروپیگنڈہ نہیں ہے بلکہ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے دنیا پہلے بھی ایسی مختلف وبائوں کی مختلف لہروں سے نہ صرف متاثر ہوچکی ہے بلکہ لاکھوں کروڑوں قیمتی جانوں کا زیاں ہوا۔ معزز قارئین کرام! سب سے پہلی اور بڑی وبا1889ئ میں شروع ہو کر 1892ئ دو مراحل مکمل کرکے ختم ہوئی۔ 1918ئ میں شروع ہونے والی ’سپینش فلو‘‘وبا جس کااختتام1982ئ میں ہوا اس کے بھی دو مراحل تھے۔ اسی طرح1857-58ئ کے دوران انفلوئنرا کی عالمی وبا بھی دو مراحل کے بعد اپنے اختتام کو پہنچی۔اس سے پہلے اگر مطالعہ کریں تو طاعون اور جذام کی بیماریوں سے ہر کوئی واقف ہے۔ کوڑھ کے مریضوں کے لیے احاطے مخصوص کر دیے گئے تھے تاکہ اپنوں کو دور رکھ کر ان تک کھانا پہنچایا جاسکے۔ حالیہ کرونا کے دوران وفات پاجانے والے لوگوں کو ابتدا میں چند لوگوں کی موجودگی میں دفن کیا جاتا رہا اور اپنوں نے جنازوں اور آخری رسومات میں شرکت نہیں کی۔ یہ سب کچھ سوشل میڈیا پر اب بھی موجود ہے اور دیکھا جاسکتا ہے۔ دراصل پاکستان میں پہلی شدید لہر میں ہم نے جو احتیاطی تدابیر اختیار کیں جس سے اموات میں نمایاں کمی ہوئی تو ہمارے لوگوں نے وہ تمام ضروری احتیاط، ہدایات پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ وہی شادیاں، جنازے، قل خوانی ،مذہبی اجتماعات، سیاسی جلسے، جلوس سے کرونا پھیلا اور اب اسکی شدید لہر ہے اور اگر سرکاری سطح پر موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ہمارے ہسپتال مریضوں سے بھر جائیں گے۔ ہمارے پاس اتنے مریضوں کے لیے انتظامات نہیں ہیں اور پھر ہمارے ڈاکٹر، پیرا میڈیکس پہلے ہی بہت قربانی دے چکے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اب ہسپتالوں میں بھی کوئی نہ ملے کیونکہ زندگی تو سب کو عزیز ہے۔