کراچی کی ایک منفرد اور گنجان آباد بستی منصورہ المعروف فیڈرل بی ایری
1953 میں وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت نے کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ کے تحت کم آمدنی کے حامل سرکاری ملازمین کی آباد کاری کے لئے ''منصورہ'' کے نام سے مختلف قطعات پر مشتمل ایک عظیم رہائشی منصوبہ تشکیل دیا۔جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ منصورہ کے بجائے فیڈرل بی ایریا کے نام سے زیادہ معروف ہوگیا۔ 1985 میں علاقے کے نوجوانوں نے فیڈرل بی ایریا کا نام گلستان مصطفی رکھنے کی تحریک چلائی تھی اس وسیع علاقے کو بھی دارالحکومت کے لحاظ سے بسایا گیا تھالیکن 1960 میں کراچی کے بجائے اسلام آباد کو دارالحکومت کا درجہ دینے کے باعث یہ علاقہ وہ مقام نہ پاسکا جس مقصد کے تحت اسے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے بسایا گیا تھا۔ فیڈرل بی ایریا کو انتظامی لحاظ سے ۲۲مختلف بلاکوں تقسیم کیا گیا ہے جس میں بلاک۱۲اور ۲۲ صنعتی علاقوں کی حیثیت سے مختص ہیں۔فیڈرل بی ایریا کی
مرکزی شاہراہ پاکستان (سپر ہائی وے) کا شمار ملک کی قومی شاہراہ میں ہوتا ہے۔ اس سڑک کا افتتاح 29پریل1970 ء کو سابق صدر مملکت یحییٰ خان نے کیا تھا افتتاحی تقریب میں گورنر مغربی پاکستا ن لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمان، وزیر صنعت حفیظ الدین، کمشنر کراچی مسعود نبی نور۔ڈپٹی کمشنر کنور ادریس، ڈی آئی جی پولیس محمد یوسف سمیت چاروں مسلح افواج کے سربراہان شریک تھے۔ افتتاحی تقریب کے بعد شاہراہ پاکستان کو کراچی اور حیدرآباد کے درمیان عام ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا تھا. سڑک لیاقت آباد نمبر 10 مسجد شہدا سے شروع ہوکر براستہ کریم آباد، عائشہ منزل، واٹر پمپ، انچولی سوسائٹی سہراب گوٹھ پرختم ہوتی ہے۔ سہراب گوٹھ الاآصف اسکوائر سے حیدرآباد کے درمیان گزرنے والی سپر ہائی وے کو ایم نائین کا نام دیا گیا ہے۔ شاہراہ پاکستان پر کریم آباد،واٹر پمپ، عائشہ منزل اور سہراب گوٹھ کے مقام پر فلائی اوور تعمیر کئے گئے ہیں شہر میں ٹریفک حادثات پر قابو پانے، قوانین پر عمل اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے ٹریفک پولیس نے شہر میں واٹر ٹینکرز اور آئل ٹینکرز کو رات ۹ بجے سے صبح ۶ بجے تک جب کہ دیگر ہیوی ٹریفک رات ۱۱ بجے سے صبح ۶ بجے تک چلائے جانے کا قانون بنایا تھا لیکن اس پر عمل نہ ہوسکا۔1990کی دہائی میں فیڈرل بی ایریا کی رہائشی عمارت عصمت کارنر میں اندوہناک واقعہ پیش آیا تھا جس میں فلیٹ میں آتشزدگی کے بعدخاتون نے جان بچانے کے لیے باہر چھلانگ لگادی تھی تاہم وہ اپنے دو بچوں کو نہیں نکال سکی تھی جو جھلس کر مرگئے تھے۔سڑک کے نزدیک بلاک ۲۱ میں ایک شخص نے خاندانی دشمنی پر بیوی ساس اور۲ سالوں کو بے دردی سے قتل کرکے ان کی لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے تھے۔1992 میں متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف آپریشن کلین اپ‘ کیا گیا جس کا سرکاری نام ’آپریشن بلیو فوکس‘ رکھا گیا تھا، مگر یہ ’کراچی آپریشن‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ آپریشن کے دوران 23 نومبر 1995 کوسابق وزیراعلی عبداللہ شاہ کے بھائی اور موجودہ وزیراعلی مراد علی شاہ کے چچا احسان اللہ شاہ کو بلاک۰۱ فیڈرل بی ایریا میں انکی رہائش گاہ کے نزدیک نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔9دسمبر1995ء کو بانی متحدہ کے ستر سالہ بھائی ناصر حسین اور اٹھائیس سالہ بھتیجے عارف حسین کو بلاک ۳۱فیڈرل بی ایریا سے نامعلوم افراد لے گئے تھے۔اور بعدازاں دونوں کو قتل کرکے ان کی لاشیں گڈاپ کے علاقے میں پھینک دی گئیں تھیں۔18مئی2000 کو شاہراہ پاکستان نصیر آباد اسٹاپ کے نزدیک ممتاز عالم دین مولانا محمدیوسف لدھیانوی کو گھر سے عالمی مجلسِ تحفظ ختم نبوت کے دفتر جاتے ہوئے نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے شہید کردیا تھا۔جنوری 2001 میں بلاک ۰۱ میں سڑک سے ملحقہ زیر تعمیر عمارت سے انڈرورلڈ سے تعلق رکھنے والے ابراہیم بھولو کی لاش ملی تھی۔ 2جنوری2013 کو عائشہ منزل اسٹاپ پر ہونے والے بم دھماکے میں ۴ افراد ہلاک 50سے زائد ذخمی ہوگئے تھے۔23نومبر2013ء کوانچولی بلاک ۰۲ میں چائے کے ہوٹل اور اس کے قریب یکے بعد دیگرے دو دھماکوں میں ایک بچے سمیت۷افراد جاں بحق اور ۵۳سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ 22مئی2016 کو عائشہ منزل فلائی اوور کے نیچے تعینات ٹریفک اہلکاروں پر نامعلوم موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے قریب سے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں دونوں پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔فیڈرل بی ایریا کے اہم و مشہور مقامات میں یوسف پلازہ، یوکے اسکوائر، مامجی اسپتال، گورنمنٹ علامہ اقبال اسکول، مرکزی فائربریگیڈاسٹیشن، میٹرو پولیٹن اکیڈمی، جامع مسجد تقوی،، مطب حکیم مرسلین۔ عزیز آبادٹیلی فون ایکسچینج(جو اب نجی اسکول میں تبدیل ہوگیاہے)،عرشی شاپنگ سینٹر سابقہ عرشی سینما،بازاد فیصل۔ مینا بازار۔ کاکا بوانی سینٹر۔میمن فاونڈیشن۔ٹبہ اسپتال۔مطب حکیم محمد سعید عالم،آغا خان میٹرنٹی ہوم، اسلامک ریسرچ سینٹر،امام بارگاہ سیّد الشہدائ، آغاخان جماعت خانہ، گورنمنٹ سراج الدولہ کالج، اپوا گرلز کالج، دفتر ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن، ضلعی آفس صوبائی محتسب اعلی، علامہ اقبال اسکول۔ایدھی سینٹر۔امام بارگاہ بو تراب۔امام بارگاہ شعیب ابی طالب، دارلعلوم نعیمیہ۔آغا خان جماعت خانہ۔مدنی مسجد۔کمپرہینسیو اسکول۔کراچی اکیڈمی۔ مینابازار۔ بازار فیصل، آغا خان اسکول، الاعظم اسکوائر، الکرم اسکوائر، شکیل کارپوریشن، دہلی گورنمنٹ بوائز اسکول۔دارلعلوم نعیمیہ۔جاوید نہاری فرزانہ دواخانہ۔تعلیمی باغ۔سنگھم گرائونڈ شاداب گرائونڈ۔یو بی ایل اسپورٹس کمپلیکس۔ بنگوریہ گوٹھ۔ضیاالحق کالونی۔موسی کالونی و دیگر شامل ہیں۔فیڈرل بی ایریا کے مختلف علاقوں میں مقیم نامور شخصیات میں علامہ رشید ترابی مرحوم، علامہ طالب جوہری، ایم کیو ایم کے بانی ۔چیئر مین عظیم احمد طارق،ڈاکٹر عمران فاروق۔رکن الدین خان بلڈر، ممتاز شمیم صنعتکار، پروفیسر غفور احمد نائب امیر جماعت اسلامی،۔رکن قومی اسمبلی ایس ایم اسلم۔سید امین الحق۔سابق رکن سندھ اسمبلی وکیل احمد جمالی۔ سابق ڈپٹی اسپیکر عبدالرازق خان۔ ممتاز شعراء اطہر نفیس، نصیر ترابی، راغب مراد آبادی، سلیم احمد، براڈکاسٹرقمر جمیل، اقبال فریدی۔ پروفیسر انجم اعظمی۔نعت خواں مجیب الرحمان،زبیر عثمانی، محمود عثمانی،راجا رحمت کونسلر۔ اختر علوی۔توقیر بیگ۔شمشاد مجاہد۔ رشید عالم سابق سیکریٹری داخلہ سندھ۔ اشتیاق اظہر سابق کنوینر ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی۔صحافی نسیم شاد، شعیب احمد، حیات عزیز نقوی، عمران احمد، جمال فریدی۔ کامران جیلانی۔ڈاکٹر حبیب بیگ چغتائی۔ سینیٹر زاہد اختر۔ممتاز شمیم۔ سماجی رہنما طارق محبوب، عارف قاسمی،راشد فاروقی۔رئوف صدیقی سابق وزیر۔ سابق ڈائریکٹر پارکس شہزاد خان و دیگر شامل ہیں۔