ماواں ٹھنڈیاں چھاواں پیش آسکے گا کیسے کوئی حادثہ مجھے ماں نے کیا ہوا ہے سپرد خدا مجھے
جہلم کے مرحوم شوکت مہدی کا شعر ماںکی محبت اورمودت سے بھرپور ہے، میں اکثر اس شعر میں پوشیدہ سبق سے تقویت محسوس کرتا ہوں۔ مجھے ماں یادآتی ہے پھر یادوں کی شدت کم کرنے کے لیے دعاؤں کا چراغ روشن کرنا پڑتا ہے۔ اولاد کا اپنے والدین سے رشتہ انمول اور انمٹ ہے اور ماں سے تعلق اور عقیدت کو الفاظ سے بیان نہیں کرسکتے۔15 نومبر کو لندن میں میاں نوازشریف کی والدہ (بیگم شمیم اختر ) کی رحلت ہوئی ان کی میت 28 نومبر ہفتہ کی صبح پاکستان پہنچی‘ اسی روز جاتی امراء میں انہیں سسکیوں اور آہوں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ 29 نومبرکو رسم قل بھی ادا کی گئی ۔ اللہ کریم شہبازشریف اور میاں نوازشریف کی والدہ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام دے اور ان کی اولاد اورمتاثرین کو صبر جمیل عطا کرے آمین ۔میں نوازشریف اور شہبازشریف کے کرب ، بے کلی اور بے چینی کو اس لیے زیادہ بہتر انداز سے جانتا ہوں کہ ہماری والدہ بھی جنت مکیں ہو چکی ہیں۔ ماں جی کے بعد پل پل زندگی جیسے گزاری اس کا اندازہ ان لوگوں کو نہیں ہوسکتا جن کے سروں پر والدین کا سایہ موجود ہے۔جب مجھے نواز اور شہباز شریف کی والدہ محترمہ کی وفات کی خبر ملی تو مجھے بے اختیار اپنی والدہ کی جدائی کے لمحات یاد آگئے۔کوئی بڑا ہو یا چھوٹا امیر ہو یا غریب موت کو کسی سے کوئی غرض نہیں۔ میاں نواز شریف کی والدہ محترمہ انتہائی ملنسار، ہمدرد،شفیق اور غریب پرور خاتون تھیں۔ خاندان کے لوگ تو انہیں اماں جی کہہ کر پکارتے ہی تھے۔ دعا ہے کہ سب کے سروں پر ماں باپ کی ٹھنڈی چھاؤں کا جہاں آباد رہے دعا کا دوسرا حصہ خدمت پر ہے اللہ پاک ہمیں والدین کی خدمت کرنے کا وہ طریقہ اور وہ سلیقہ عطاکرے جس سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی حاصل ہو ‘آمین مجھے یہ دکھ ہے کہ نوازشریف کی والدہ کے انتقال پر بعض وفاقی اور
صوبائی ورزاء نے جس جس انداز سے تبصرے کئے اس سے سنیجدہ افراد اور والدین کی خدمت کرنے والوں کے دل رنجیدہ ہیں ۔ہم معاشرے کو اندھی تنقید کے کانٹوں سے کس طرف لے رہے ہیں ؟کیا ہم ایسے خاندان پر تنقید کے تیر چلا سکتے ہیں جن کی بذرگ شخصیت زندگی کی بازی ہار گئی ہو ,,شرم تم کو مگر نہیں آتی،،اللہ پاک ہمیں ہدایت دے‘ ہمیں احساس اور مروت کی وہ دولت دے جس سے معاشرتی زندگی کا حسن جاگزیں ہوجاتا ہو۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل کا تبصرہ پڑھیں وہ فرماتے ہیں ,,جو آزاد ہے وہ جنازے میں نہیں آسکتا اور جو قید ہے اس کی رہائی کے لیے پی ایم ایل این فکر مند ہے،، اس طرح کے ہی کچھ خیالات صوبائی مشیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کے تھے! سوال یہ ہے کہ شریف خاندان کے غم میں ایسی باتیں حکمرانوں کو زیب دیتی ہیں! والدین کی تابعداری کے حوالے سے دشمن بھی معترف ہیں کہ نوازشریف اور شہبازشریف اپنے والدین کے حدسے زیادہ تابع فرماں اور خدمت گزار تھے ۔ معروف کالم نگار محترمہ زاہدہ حناء کی وہ بات ناقابل فراموش ہے انہوں نے بیگم شمیم اختر سے طویل ترین انٹرویو کے دوران بار بار ایک ہی جملہ سنا ,, میرے نوازشریف نے میری کبھی بات نہیں ٹالی‘‘ زاہدہ حناء صاحبہ خود سوال کرتی ہیں کہ بیگم شمیم صاحبہ نے یہ جملہ شہبازشریف کے لیے نہیں بولا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماں کی خدمت کی بابت میاں نوازشریف نے اپنی والدہ کا کتنا مان بڑھایا ہوگا۔ اللہ کریم سب کو میاں برادران کی طرح والدین کی خدمت کی توفیق دے۔ ہم ان سطور کے ذریعے اہل اقتدار سے درخواست گزار ہیں کہ خدارا قومی سیاست میں اعلی روایات کا چراغ جلائیں آپ محبت اور اخوت کی کوشش کریں گے تو اس کے اثرات نچلی سطح تک محسوس کئے جا سکیں گے۔نوائے وقت کے کالم نگارامتیاز عاصی لکھتے ہیں مجھے نواز شریف کی والدہ محترمہ سے دو مرتبہ سعودی عرب میں قیام کے دوران ملاقا ت کا موقع ملا۔میں سعودی عرب میں پاکستانی سفیر سید خالد محمود ا،ماں جی کے ساتھ پاکستان ہاوسز کے دیگر ملازمین کے ساتھ مسجد
نبوی جا رہا تھا تو چند ملازمین نے اماں جی سے کہا کہ انہیں ملازمت سے نکالا جا رہا ہے چنانچہ اماں جی نے اسی لمحے کہا کہ سفیر صاحب ہماری حکومت لوگوں کو ملازمت سے نکالنے نہیں آئی ہے آپ نے کسی ملازم کو ملازمت سے نہیں نکالنا۔سعودی عرب میں سفیر پاکستان ہاوسز کے متولی ہوتے ہیں اس لحاظ سے مدینہ منورہ کے پاکستان ہاوسز انہی کی نگرانی میں کام کرتے ہیں۔ایک اور موقع پر مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران اماں جی سے ملاقات ہوئی ۔شریف خاندان کے مکہ مکرمہ کے ایک معلم کمال محمود ناصر سے بڑے قریبی روابط تھے۔اما ں جی نے کمال ناصر سے کہا کہ کمال حاجیوں کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے ۔اقتدار میں آنے سے قبل شریف خاندان جب کبھی سعودی عرب جاتاتو کمال محمود ناصر کے ہاں ان کا قیام ہوا کرتا تھا۔جب کمال ناصر کو دل کا عارضہ لاحق ہوا تو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی میں اس کا علاج معالجہ شریف خاندان نے کرایا تھا۔