وزیر اعظم کے شہر کو نالج سٹی بنایا جائے
مکرمی: سکول تعلیم کے بعد جب ان ملازمین کے بچوں کی میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم کا وقت آتا ہے تو ان کو اسلا م آباد اور لاہور میںداخلہ دلوانا پڑتا ہے اب ایجوکیشن اتنی مہنگائی ہو گئی ہے کہ والدین کے لئے ان کو اعلی تعلیم کیلئے اسلام آباد اور لاہور میں بھیجنا اور تعلیمی اور ہاسٹل کے اخراجات بیک وقت برداشت کرنا بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور اکثر اوقات طالبات کیلئے خصوصا مناسب ہاسٹل کی دستیابی نہیں ہوتی جبکہ 2019 مارچ سے کووڈ 19 کی وباء میں شدت آچکی ہے۔ میری وزیر اعظم سے گزارش ہے کہ میانوالی کو ’’ نالج سٹی‘‘ کا درجہ دیا جائے اور ’’کامسیٹس‘‘ اور ’’نسٹ‘‘ کے ریکٹرز کو ہدایت کی جائے کہ وہ اپنے سب کیمپسز پہلی ترجیح میں میانوالی میں قائم کریں تاکہ چشمہ کالونیوں میں رہائش پزیر ملازمین کے بچوں کو تعلیم اپنے دروازے پر ملے۔ والدین کے غیر ضروری اخراجات میں کمی آئے اور بچے اپنے والدین کی نظر میں رہیں۔ اور ان سب کیمپسز میں وہ انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کی وہ مضامین/ پروگرام متعارف کرائے جائیں جو کہ چشمہ نیوکلیئر پاور کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کا موجب بن سکیں۔ اور مستقبل کے چیلنجز سے بھی نبردآزما ہو سکیں۔ ان یونیورسٹیوں کیمپسز میں تدریس و تعلیم کے حوالے سے اٹامک انرجی کے اعلی تعلیم یافتہ ٹیکنیکل افراد کی فنی مشاورت سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور تجویز ہے کہ کندین میں میڈیکل کالج کی بنیاد رکھی جائے اور جس کا الحاق اٹامک انرجی ہسپتال کے ساتھ کی جائے جس سے علاقے میں میڈیکل کالج کے قیام سے آبادی ، کی مستقبل کی طبی ضروریات بھی پوری کرنے میں مدد ملے گی۔ اور لوگون کو غیر ضروری طور پر نشتر ہسپتال ملتان، اسلام آباد اور لاہور نہین جانا پڑے گا۔میانوالی کو نالج سٹی بنانے سے نہ صرف جنوبی پنجاب کے پس ماندہ علاقے مثلا کالا باغ، خوشاب، بھکر، لیہ، جوھر آباد، نورپور تھل۔ اورارد گردکے دیگر علاقون کے نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے کا پلیٹ فارم مہیا ہو جائے گا۔ بلکہ ضلع میانوالی کے ساتھ جڑے خیبر پختونخواہ کے علاقے مثلا ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، کرک اور دیگر علاقے کے نوجوانوں کو متنوع تعلیم کی سہولتیں میسر آسکیں گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ’’بی‘‘ اور ’’سی‘‘ کیٹگری کے شہروں کی ترقی پر توجہ دی جائے‘ تاکہ ’’ اے‘‘ کیٹگری کے شہرون پر آبادی کی ضروریات کا دبائو کم کیا جاسکے اور پسماندہ علاقے ترقی کر سکیں۔