کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق

مولانا فضل الرحمان کے نزدیک حکومت کیخلاف جنگ سے پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے۔ بڑے بڑے گناہ کبیرہ سے تو سب واقف ہیں لیکن مولانا کے گناہ کبیرہ سے بے خبر تھے۔ مولانا کے اس گناہ کبیرہ میں انکے شراکت دار مریم نواز اور بلاول بھٹو ہیں۔ قومی سیاست الزامات کے گرد گھوم رہی ہے۔ اختلاف رائے ہر گھر میں ہوتا ہے۔ یہ فطری بات ہے۔ تنقید ہر شہری کا سیاسی جمہوری اور آئینی حق ہے۔ 1977ء میں تحریک نظام مصطفی چلائی گئی‘ بالآخر بھٹو اور پی این اے کے رہنماء ٹیبل پر آمنے سامنے ہوئے لیکن کسی ایک فریق کی بدنیتی نے مذاکرات کی میز الٹا دی اور سب کو چلتا کیا۔ طویل دورانیے کا مارشل لاء بھگتنا پڑا۔ آج کل بھی وہی صورتحال ہے۔ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ ہی قومی اتحاد اور اتفاق رائے پیدا کر سکتا ہے۔ پہلے ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کیخلاف تھی لیکن اب بات چیت کرنے پر آمادہ ہے لیکن عمران خان کا بیانیہ سخت تر ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں لاکھوں جلسے کرلیں‘ این آر او نہیں ملے گا۔ لاک ڈائون ہوا تو ذمہ دار پی ڈی ایم ہوگی جبکہ وزیراعظم کا منصب تقاضا کرتا ہے کہ وسیع القلبی اور لچک کا مظاہرہ کیا جائے۔ بات چیت کیلئے پہل کرنا انکی ذمہ داری ہے۔ آئندہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے اتفاق رائے سے قانون سازی کی جائے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں نیب ایکٹ میں بھی مناسب ترامیم کی جائیں۔ وفاق اور سندھ میں کشیدگی برقرار ہے۔ ایم کیو ایم کو حکومتی اتحادی بننے کا صلہ ایک وزارت کی صورت میں ملا۔ وہ سندھ کے شہری علاقوں میں رہا سہا اعتماد بھی کھو رہی ہے۔ گیارہ سو ارب روپے کا وفاقی پیکیج وعدہ فردا ثابت ہو رہا ہے۔ ساحلی علاقے ترقیاتی کاموں سے یکسر محروم ہیں۔ سندھ کے شہری علاقے بنیادی سہولتوں سے محروم کیوں ہیں؟
سٹیٹ بنک کی سالانہ رپورٹ نے 52 سال میں پہلی بار منفی اکنامک گروتھ ریٹ کا ذکر کیا ہے۔ رپورٹ نے کرونا کو جبکہ عالمی اداروں نے ملکی معاشی پالیسیوں کو بھی منفی شرح نمو کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اب بھی وزیراعظم نے مکمل لاک ڈائون کا عندیہ دے دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ 48 لاکھ گھرانوں کو ایمرجنسی نقد رقم فراہم کی گئی۔ شرح سود 6.25 کم کی گئی اور حکومتی قرضوں کا حجم جی ڈی پی کا ایک عشاریہ ایک فیصد تک محدود رکھا گیا۔ کرنٹ اکائونٹ قابو میں ہے‘ سٹیٹ بنک کی نگاہ میں ٹیکس کی اساس کو وسیع کرنے اور نان ٹیکس محاصل پر انحصار کم کرنے کیلئے معیشت کو دستاویزی بنانے اور غیررسمی معیشت میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے اصلاحات کے نام پر مطالبات کی نئی فہرستیں ہر کچھ عرصے بعد آجاتی ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ صنعتوں کیلئے زہرقاتل ثابت ہو رہا ہے۔ اسی طرح ایف اے ٹی ایف کے بہت سے مطالبات کا تعلق معیشت سے نہیں بلکہ خطے کی سیاست سے ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے ذریعے بھارت کے مطالبات پاکستان سے منوائے جارہے ہیں۔ معیشت کے ڈھانچے میں پائی جانیوالی خرابیوں کو دور کرکے مسابقت کو بڑھایا جائے۔ پی آئی اے کو مسلسل خسارے کا سامنا ہے۔ چنگ چی رکشا بھی خسارے میں چلیں تو سڑکوں سے غائب ہو جائیں۔ ملک بھر میں کھٹارا بسیں بھی منافع کما رہی ہیں۔ خسارے کے اسباب اقربا پروری سیاسی بنیادوں پر ملازمین کی بے دریغ بھرتی اور لوٹ مار بنائے جاتے ہیں۔ اب پی آئی اے اور ریلوے کی اوورہالنگ اور ری سٹرکچرنگ کا فیصلہ ہوا ہے۔ پی آئی اے کا خسارہ 450 ارب روپے ہے۔ ملازمین کی تعداد چودہ ہزار ہے۔ پاکستان سٹیل میل کو بھی نجی شعبے کے ساتھ لیز ہو گی اور پرائیویٹ سیکٹر کو پاکستان سٹیل کو 1250 ایکڑ زمین دی جائیگی۔ پی آئی اے ملازمین کی تعداد سات ہزار کردی جائیگی جبکہ ساڑھے تین ہزار ملازمین کو نجی شعبے سے آئوٹ سورس کیا جائیگا۔
پاکستان کی تجارتی ریٹنگ بھارت اور بنگلہ دیش سے بہتر ہو جانے کی خوشخبری سامنے آئی ہے۔ گزشتہ پانچ ماہ کے دران درآمدات میں کمی‘ برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافے کا رجحان بڑھا اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں استحکام دکھائی دیا۔ عمران حکومت آئی تو کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ 120 ارب ڈالر اور ادائیگیوں کا فرق 145 ارب ڈالر کے قریب پہنچ گیا تھا جبکہ رواں سال بارہ سو ارب روپے کا معاشی پیکیج قومی خزانے پر بوجھ پڑا۔ گندم‘ چینی درآمد کرنا پڑے۔ ٹیکسوں کی وصولی اور اہداف کا تعین کبھی آسان نہیں رہا۔ ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ کرنا بھی ناممکنات میں دکھائی دے رہا ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد ڈبے کے دودھ‘ فیڈر‘ پیمپر سے لے کر پٹرول تک بالواسطہ ٹیکس ادا کرتی ہے۔ قبرستانوں میں تدفین بھی ہزاروں روپے کا خرچ ہے۔ حکومت کے ذرائع آمدنی مزارات پر پاپوش بیت الخلاء اور ہسپتالوں میں سائیکل سٹینڈوں کی کمائی ہے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح کوئی حکومت کم نہیں کر سکی۔ فی الحال تو کرونا کرونا کی دہائی ہے۔ جتنا تعلیمی نقصان 2020ء میں ہوا ہے‘ پاکستان کی تاریخ میں اتنا کسی اور سال میں نہیں ہوا تھا۔ اب ایک بار پھر تعلیمی اداروں میں طویل دورانیے کی چھٹیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ گلی محلوں میں بچے سارا دن کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں۔ آن لائن پڑھائی اور کلاس روم کی پڑھائی میں بڑا فرق ہے۔ آن لائن دل کو بہلانے کی باتیں ہیں جبکہ تعلیم میں تخفیف کردی گئی ہے۔ نالج کی مقدار بجائے بڑھانے کے کم کر دی گئی ہے۔ بچوں کا اوڑھنا بچھونا اب موبائل ہے۔ سیاست کئی بھیس بدلتی ہے۔ کبھی میثاق جمہوریت سامنے آتی ہے تو کبھی میثاق پاکستان کبھی آئین کی خلاف ورزی کرتی ہے کبھی معطل کرتی کبھی ترمیم کرتی ہے۔ معیشت میں بہتری کے اشارے اپنی جگہ لیکن عام آدمی کو ریلیف کب ملے گا۔ 2021ء آنیوالے الیکشن کی تیاریوں کے آغاز کا سال ہوگا۔ مثبت اعشاریوں سے امداد اور قرضے دینے والے ممالک کی توجہ تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن عوام کو قائل نہیں کیا جا سکتا۔
عوام صرف یہ جانتے ہیں کہ ٹماٹر‘ آٹے‘ چینی‘ بجلی‘ گیس کے بلوں میں کتنا اضافہ ہوا۔ بچوں کی فیسوں‘ ادویات‘ پٹرول‘ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کتنی کمی ہوئی۔ ملکی سیاست کب تک تنائو کا شکار رہے گی۔ منتخب ایوان شورشرابہ‘ الزامات اور ایک دوسرے پر رکیک حملوں سے کب پاک دکھائی دیں گے۔ سیاسی لوگ کردارکشی سے کب باز آئیں گے۔ یہ لوگ نئی نسل کی کیا تربیت کررہے ہیں اور انہیں کیا پیغام دے رہے ہیں۔ سندھ اور وفاق میں اختلافات برقرار ہیں۔ کراچی میں مصطفی کمال کی سیاست کا محور عوامی مسائل کا حل ہے۔ انکے نزدین ایم کیو ایم کا نام نشان‘ جھنڈا اور لیٹر ہیڈ صرف الطاف حسین کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کی معاشی شہ رگ میں راہ کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ خالد مقبول صدیقی کی نظر میں ایم کیو ایم پاکستان اور مہاجروں کو کسی گرینڈ الائنس کی ضرورت نہیں۔ ہم ایک مہذب تہذیب کے امین ہیں۔ علامہ خادم رضویؒ کی رحلت کے بعد لبیک یارسول اللہ ؐ کا نعرہ زندہ و پائندہ رہے گا۔ یہ سیاسی نہیں عاشقان اور غلامانِ رسولؐ کا نعرہ ہے۔ حافظ سعد حسین رضوی کیلئے مشورہ ہے کہ وہ اپنے والد گرامی کے ساتھ چلنے والے عالم فاضل اصحاب کو اپنے ساتھ رکھیں۔ امیر تحریک ہونے کے باوجود ان اصحاب کی باتیں ہوش گوش سے سنیں اور ملک کے کونے کونے میں خود جا کر تحریک کو زندہ رکھنے اور دوام بخشنے کی کوشش کریں۔ احمق تحریک کو بریلوی سیاست کا نام دیکر اختلافات کی خلیج کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ سراج الحق نے باادب ہو کر علامہ رضوی کے مرقد پر حاضری دی اور درود و سلام سماعت فرمایا۔ اپوزیشن نے ملتان اور لاہور میں مزید دو جلسوں کے بعد لانگ مارچ کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے نزدیک وہ پاکستانیوں کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ میدان جنگ سے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ حکومت کیخلاف ہمارے ساتھ آواز ملائے تو ہم بھائی بھائی ہیں۔