اسلام اور پاکستان پر مسلط ـ ــــ ـــ ’’ ففتھ جنریشن وار‘‘

کسی بھی جنگ کا مقصد اپنے اہداف کا حصول ہوتا ہے۔ آج کی دنیا میں اکثر ممالک کے پاس ایسے بے شمار ہتھیار موجود ہیںکہ کسی غیر ایٹمی جنگ کی صورت میں بھی، فتح کسی بھی فریق کو ملے دونوں اطراف کو بے پناہ نقصان ہو گا۔ دوسرا یہ کہ جہاں مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اصل زندگی موت کے بعد شروع ہونی ہے اور مسلمان شہادت کو نصیب کی بات سمجھتا ہے، وہاں تمام اسلام دشمن طاقتوں کے لیے موت ہر چیز کا خاتمہ ہے اس لیے وہ اپنے ہدف حاصل کرنے کے لیے ایسے طریقے ڈھونڈتی رہتی ہیں جن سے ان کا جانی نقصان کم سے کم ہو۔ اسی لیے ایسے تمام محاذ جہاں پر ان کو اپنے جانی نقصان ہونے کا اندیشہ ہوں وہاں سامنے آ کر مردانہ وار جنگ کرنے کی بجائے انہوں نے پیسے، معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں اور یہاں تک کہ فلموں ڈراموں کو ہتھیار بنا کر ایک نئی قسم کی جنگ شروع کی ہوئی ہے جسے ’’ ففتھ جنریشن وار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں دشمن کے خلاف پراپیگنڈہ، جھوٹ، غلط معلومات جیسے ہتھیار استعمال کر کے اس کے نظریات کو تبدیل یا غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اور اس سب کے لیے سکولوں کے نصاب سے لے کر میڈیا، ٹالک شوز، فلموں، ڈراموں، گانوں اور کمرشل اشتہارات تک سب کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کہیں آہستہ آہستہ قوم کی سوچ تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کہیں یہ سب کرنے کے لیے ان تمام ہتھیاروں کے ذریعے ’’ مخفی پیغام رسانی‘‘ سے کام لیا جاتا ہے، جسے سا ئنس کی زبان میں ubliminal Perception" "Sکہتے ہیں۔ اس میں شعور کو محسوس ہونے سے کم طاقت کے Stimulus کے ذریعے سے فرد یا افراد کی سوچ،محسوسات اور نظریات پر اثر انداز ہوا جاتا ہے۔ ایسا کرنے کے دوران بظاہر کچھ اور نظر آنے والے اشتہار یا پیغام کے اندر نہایت مختصر عرصے کے لیے کسی آواز یا تصویر کے ذریعے کوئی اور مخفی پیغا م دیا جاتا ہے ۔ یہ پیغام اتنا مختصر ہوتا ہے کہ یا تو نظر ہی نہیں آتا یا پھر اتنے مختصر عرصے کے لیے نظر آتا ہے کہ ایک غلطی اور بے مقصد لگتا ہے۔ اس کی سائنسی بنیاد یہ ہے کہ ہمارا دماغ دو حصوں شعور اور لاشعور پر مشتمل ہے۔ بظاہر تو ہمارا شعور ہماری ہر حرکت اور سوچ پر حاوی نظر آتا ہے لیکن جہاں ہمارا شعور ایک وقت میں سات سے لے کر دس تک مختلف معلومات سے ڈیل کر سکتا ہے ، ہمارا لاشعور ایک وقت میںبیس ہزار کے قریب مختلف معلومات کو پراسس کر سکتا ہے۔ ان تمام معلومات کو ہمارے دماغ کے شعوری حصے کی جانب نہیں بھیجا جاتا لیکن ہمارا دماغ ان تمام کے اثرات کو قبول کرتا ہے اور یہ اثرات ہماری آئندہ سوچ، نظریات اور احساسات پر حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ سب کوئی ’’ دور کی کوڑی‘‘ یا ’’ ذہنی اختراع‘‘ نہیں ۔ سب سے پہلے 1897 میں ایک پراجیکٹ بنام " The new Psycology" میں فوجیوں کی ٹریننگ کے لیے’’ مخفی پیغامات‘‘ کو استعمال کیا گیا۔ دنیا اس جانب اس وقت زیادہ متوجہ ہوئی جب 1950 کی دہائی میں شائع ہونے والی کتاب " Hidden Persuaders" میں تفصیل کے ساتھ اسکا ذکر کیا گیا۔ اس دوران برطانیہ کے نشریاتی ادارے BBC اور کینیڈا کے نشریاتی اداروں نے اس بارے میں کامیاب تجربات کیے۔ اس کے بعد اشتہاراتی کمپنیوں نے اس تکنیک کا ’’ کمرشل ‘‘ استعمال شروع کر دیا ۔ بات یہاں تک بڑھی کہ امریکہ کے ’’ فیڈرل کمیونیکشن کمیشن‘‘ (FCC) نے اس کے خلاف باقاعدہ تحقیقات کے بعد اسے ’’ عوامی مفاد‘‘ کے خلاف قرار دیا۔ ففتھ جنریشن وار میں بہت سے ظاہر اور مخفی ہتھیار استعمال ہوتے ہیں جن کا مقصد، انسانیت، مساوات، ہمدردی، انسانی برابری وغیرہ جیسے دلفریب نام استعمال کر کے دشمن ممالک اور اقوام کے معاشرتی تانے بانے اور نظریات کو تباہ کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے سب سے مہلک ہتھیار اس ملک کی نصابی کتب پر حملہ ہوتا ہے۔تعلیم کے لیے امداد ، اور مشاورت برائے تعلیم کے نام پر اس ملک کی نصابی کتب میں اپنی پسند کا مواد شامل کروایا جاتا ہے اور نصاب کے ایسے حصے جو اس قوم کی نئی نسل میں غیرت، ملک اور مذہب سے محبت اور نظریے کی بقا کا باعث بن سکتے ہوں انہیں نکلوا دیا جاتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ مغربی ممالک ڈالر دے کر ہمارے ملک کے سکولوں کالجوں کے نصاب کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہم دوسری تیسری ، سے لے کر میٹرک کے بچوں کی نصابی کتب بنانے اور نصاب تشکیل دینے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے ؟ ہمارے ’’ جدید سکول‘‘ جو چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی ’’مغربی ممالک ‘‘ کی کتب پڑھاتے ہیں ( اور ہم ان سکولوں میںاپنے بچوں کو بھیجنے میں فخر محسوس کرتے ہیں) ان کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا ان کتب میں کوئی ایسی ABC سکھائی جاتی ہے جو ہم خو د نہیں چھاپ سکتے؟ ہمارے دشمنوں کا سب سے مہلک ہتھیار ہی ہمارے بچوں کے لیے انکا تشکیل دیا گیا نصاب ہے کیونکہ ہماری نئی نسل کی سوچ اور نظریے کی تشکیل اسی سے ہونی ہے۔ یہ سب فلمی دنیا کی خیالی باتیں نہیں بلکہ حقیقت ہے ۔ اسی لیے دنیا کے ایک حصے کو کشمیر کی تحریک آزادی دہشت گردی نظر آنے لگی ہے ۔ ہر باریش آدمی کودہشت گرد اور ہر پردہ دار عورت کو انتہا پسند کہا جا رہا ہے۔ ہمارے بچوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا مذہب ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے اور معاشرے اور ریاست سے اسکا کوئی تعلق نہیں اور کچھ طاقتیں سر عام یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ ہماری عورت کے جسم پر اللہ تعالیٰ کی بجائے انکی مرضی چلے۔ہماری درسی کتب سے لے کر میڈیا اور تفریحی پروگرامو ں تک میں پاکستان اور نظریہ پاکستان غائب ہوتا جا رہا ہے۔کچھ لوگ جانتے بوجھتے ہوئے اور کچھ ناسمجھی میں پاکستان کے خلاف چھیڑی جانے والی اس ’’ ففتھ جنریشن وار ‘‘ (5GW) کا مہرہ بنے ہوئے ہیں ، جس میں ہمارے معاشرے اور نظریے کے تانے بانے ادھیڑ کر ہماری عوام کو سیاسی، معاشرتی، نظریاتی اور مذہبی طور پر شکست دینے کی غرض سے آہستہ آہستہ Desensitize کیا جا رہا ہے۔ دفاع یا جوابی وار کرنا تو بہت دور کی بات ہے، ابھی تو ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہم پر کیسی جنگ مسلط کی جا چکی ہے اورہم پر کس کس جانب سے کیا کیا حملے کیے جا رہے ہیں۔