پیر ‘ 14؍ ربیع الثانی ‘ 1442ھ‘ 30؍ نومبر 2020ء

بے رحم حکومت نے سٹیل ملز کے 4500 ملازمین کو بے روزگار کر دیا‘ انہیں بحال کریں گے‘ بلاول
جب سیاسی سفارش لوگوں کی فوج قومی اداروں میں بھرتی ہو گی تو ان اداروں کا وہی حشر ہو گا جو مرحومہ سٹیل ملز کا ہوا ہے۔ یہ بڑے بڑے ادارے جن میں پی آئی اے واپڈا ریلوے بھی شامل ہیں غیر قانونی بھرتیوں اور ملازمین کے بلاجواز جمع غفیر کی وجہ سے ہی تباہی کے دہانے تک پہنچے ہیں۔ اب سٹیل ملز ہے جو بند ہے۔ ملازمین کا بوجھ اتارا جانے لگا ہے تو پیپلزپارٹی والے ان کے ہمدرد بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ ان اداروں میں غیر قانونی بھرتیاں میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی والوں کا ہی بڑا ہاتھ ہے۔ پی آئی اے والے ہڑتال کر کے گناہ چھپانے کی کوشش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مگر بے چارے سٹیل ملز والے کیا کریں ان کی تو مل ہی بند ہے۔ وہ ہڑتال کس طرح کریں۔ اب ان کو فارغ کیا گیا ہے تو اس پر حکومت کو ازخود ملازمین کو بھوکے مرنے سے بچانے کے لیے انہیں گولڈن شیک ہینڈ جسی رعایت دینی چاہیے تا کہ ان کے گھروں میں چولہے ٹھنڈے نہ ہوں اور فاقوں کی نوبت نہ آئے۔ اطلاع بھی یہی ہے کہ وفاقی حکومت ان ملازمین کو مناسب ادائیگیاں بھی کر رہی ہیں۔ سندھ میں پی پی کی حکومت ہے وہ ہی ان ملازمین کے زخموں پر مرہم رکھے ان کے لیے روزگار یا امداد کی راہ نکالے اس میں کیا ہرج ہے صرف شور مچانے سے مگرمچھ کے آنسو بہانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ریٹائر ہونے والوں کی اشک شوئی کریں۔
٭…٭…٭
یونینز کی بحالی اور تعصب ختم کرنے کیلئے مال روڈ پر طلبہ و طالبات کا مظاہرہ
نامعلوم یہ باسی کڑی میں ایک بار پھر کیوں اُبال آرہا ہے۔ طلبہ یونینز پر پابندی‘ تعلیمی اداروں میں تنظیم سازی تو کب کی بند ہے۔ بارہا اس پابندی کو ختم کرنے کا مطالبہ ہوتا رہا ہے مگر بعض طلبہ تنظیموں کی طرف سے تعلیمی اداروں میں غنڈہ گردی اور مخالف تنظیموں کے خلاف وحشیانہ تشدد کی وارداتوں کی وجہ سے کوئی بھی حکومت یہ پابندی اٹھانے کا حوصلہ نہیںکر رہی۔ ضیاء الحق دور میں حکومت کی من پسند طلبہ تنظیموں میں اسلحہ کی فراہمی نے حالات کو مزید بگاڑ دیا تھا۔ پھر لسانی اور گروہی سیاست کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں تشدد کا عنصر بھی در آیا جس کی وجہ سے حالات مزید سنگین ہو گئے تھے۔ مذہبی اور غیر مذہبی طلبہ تنظیموں میں آج تک جو سیاسی‘ گروہی اور مسلکی چپقلش چل رہی ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ اگرچہ اس وقت حالات بدل چکے ہیں۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ حکومت اگر چاہے تو بعض قواعدوضوابط کے تحت جن کی تمام طلبہ تنظیمیں پابندی کرنے کا حلف دیں‘ تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کو کام کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اس طرح مستقبل میں ایک بہتر قیادت کا جو فقدان ہے‘ وہ کم ہو سکتا ہے۔ اب طلبہ باشعور ہو چکے ہیں‘ وہ بھی اپنا برا بھلا بہتر جانتے ہیں۔ وہ اجازت کا غلط استعمال کرکے ایک بار پھر پابندی کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔ طلبہ باہمی نظریاتی سیاسی اختلاف کو عداوت نہیں بنائیں گے۔
کالے شیشے والی گاڑی کو روکنے کی سزا ڈرائیور نے ٹکر مار کر وارڈن کو بونٹ پر گرا کر ریس لگا دی
جی ہاں یہ فلمی طرز کا واقعہ کسی یورپی ملک میں نہیں لاہور شہر میں پیش آیا جہاں ایک بگڑے رئیس زادے نے وارڈن کو صرف اس بات پر کہ اس نے کالے شیشے لگانے پر اس گاڑی کو روکا تھا ٹکر مار کر گاڑی کے بونٹ پر گرا دیااور گاڑی تیز رفتاری سے چلا دی۔ بے چارہ وارڈن بونٹ پر گرا چیختا رہ گیا۔ یہ ہوتی ہے دیدہ دلیری اور سینہ زوری۔ قانون کیا چیز ہے اسکی حیثیت کیا ہے ۔اسکو کیا جانیں یہ بگڑے ہوئے رئیس زادے۔
کوئی ہے جو اس طبقہ اشرافیہ کی چیرہ دستیوں کے آگے بند باندھ سکے۔ بے شک وارڈنز سے بھی بھول چوک ہوتی ہے۔ وہ بھی زیادہ زور موٹرسائیکل اور رکشہ والوں پر لگاتے ہیں۔قیمتی اور بڑی بڑی گاڑیوں سے نظریں چرالیتے ہیں۔ مگر قانون تو سب کے لیے یکساں ہے۔ اس بات پر اگر سختی سے عمل کیاجائے۔ کسی کی سفارش یا دباؤ میں نہ آیا جائے تو حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ تب پھر کوئی کوئٹہ کا ایم پی اے یا لاہور کا یہ بگڑا رئیس کسی وارڈن کو ٹکر مار کر قتل یا بونٹ پر گرا کر تماشہ بنا نہیں سکے گا۔ یہ حال وردی والوں کا ہے کہ وہ بھی لاقانونیت کے آگے بے بس ہیں تو پھر گڈ گورننس اور قانون کی رٹ کون قائم کر پائے گا۔ ٹی وی چیلنز پر یہ سین دیکھ کر تو یوں لگ رہا تھا جیسے کسی انگلش فلم کا سین ہو۔
٭…٭…٭
جیل میں چوہوں کا بچا کھانا دیا جاتا تھا: مریم نواز،انہوں نے ایک دن بھی جیل کا کھانا نہیں کھایا‘ گھر سے آتا تھا: شہزاد اکبر
اب سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا کون جانے۔حکومت کہتی ہے مریم نواز کا کھانا گھر سے آتا تھا‘ مریم کہتی ہیں انہیں فنگس زدہ کھانا ملتا تھا۔ وہ تو وی آئی پی قیدی تھیں‘ انہیں کھانا‘ کپڑا‘ پانی‘ سب کچھ گھر سے آتا تھا تو پھر شکایت کیسی۔ یہ چوہوں کے جھوٹے کھانے کا ذکر کہاں سے آگیا۔یہ بات بہت افسوسناک ہے کہ جیلوں میں بند سیاسی رہنمائوں کے ساتھ اگر ایسا سلوک ہوتا ہے۔ یہ ایک غلط مثال بھی بن سکتی ہے۔ کل کو کوئی بھی اسی طرح اسیری کا مزہ چکھ سکتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ بھی جیل میں یہی سلوک روا رکھا گیا تو وہ کس سے شکایت کرے گا۔ اختلافات ذاتی دشمنی نہ بنیں تو اچھا ہے۔ عام جرائم پیشہ افراد اور سیاسی قیدیوں میں فرق رکھنا ضروری ہے۔ اول تو ہر قیدی کو لباس‘ خوراک اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی جیل انتظامیہ کا فرض ہے۔ اس میں کوتاہی کی شکایات عام ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں قیدی زیادہ اور جیلیں کم ہیں۔ اب یا تو نئی جیلیں بنانا ہونگی۔ پیپلزپارٹی دور کے ایک وزیر جب وزیر جیل خانہ جات بنے تو مسرت کے عالم میں انہوں نے واشگاف اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں جیلوں کے جال بچھا دیں گے۔ اس وقت تو یہ لطیفہ بن گیا مگر اب واقعی اس کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ جیلوں میں قیدی مرغیوں کی طرح ٹھونسے ہوئے ہوتے ہیں۔ سانس لینا دشوار ہوتا ہے‘ لیکن کم از کم ہمیں قیدیوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کرنا ضروری ہے۔ ایک او ربات قیدیوں کو بھی معلوم ہونی چائے۔ وہ کوئی نیک کام کرکے جیل نہیں آتے۔ یہاں آکر قیدیوں کو اگر فائیوسٹار ہوٹل کی سہولتیں دیں تو انہیں سزا کا احساس بھلا کیوں ہوگا۔