جب ڈاکٹر نذیر شہید کے ووٹ کو،گولی مار دی گئی

سندھ میں دو پولیس افسروں کے مبینہ اغوا پر اپوزیشن نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔
کیا یہ کسی سرکاری اہل کار کا پہلا اغواہ تھا، پیپلز پارٹی کے بانی ذولفقار علی بھٹو نے آرمی چیف جنرل گل حسن کو لاہور سے غنڈوں کے ذریعے اغواہ کروا کے راولپنڈی کے راستے میں جی ٹی روڈ پر جبری استعفیٰ لیا ، یہی کچھ ن لیگ کے سربراہ نواز شریف نے جنرل مشرف کے ساتھ کیا ان کی کوشش یہ تھی کہ سری لنکا سے آنے والی پرواز جس میں اس وقت کا آرمی چیف جنرل مشرف سوار تھا اسے ہائی جیک کرکے بھارت کے ہوائی اڈے احمد نگر پہنچا دیا جائے۔
نواز شریف نے اقتدار سے فراغت کے بعد ایک نیا نعرہ دیا کہ ووٹ کو عزت دو ، واضح رہے کہ ان کو ووٹ چوری کے جرم میں اقتدار سے نہیں نکالا گیا تھا بلکہ جھوٹ بولنے کی بنا پر عدالت نے قرار دیا تھا کہ وہ آئین کی رو سے صادق اور امین نہیں رہے ، مگر ان کے اس نعرے کو پیپلز پارٹی نے بھی گلا پھاڑ کر لگانا شروع کر دیا۔
میں نے بھٹو اور نواز شریف کے دور میں اغواہ اور قتل و غارت کی وارداتوں کا ذکر کیا تو اس پر مجھے ڈیرہ غازی خان سے ایک بچی نے فون کیا کہ انکل آپ نے بھٹو کے تمام مظالم تو گنوائے ہیں مگر میرے چچا ڈاکٹر نذیر شہید کو انہوں نے جس بہیمانہ طریقے سے گولیوں کا نشانہ بنوایا اس کا تذکرہ بھول گئے، بچی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتی ہیں مگر تاریخ شاہد ہے کہ بھٹو نے ووٹ کو عزت دینے کے بجائے ووٹ کو قتل کر ڈالا تاکہ اس کے سامنے کلمہ حق کہنے والاکوئی نہ رہے ۔ بچی نے اپنے والد جو وکالت کرتے رہے ہیں اور اب بڑھاپے کی عمر میں ہیں، ان سے بھی بات کرائی وہ بھی ڈاکٹر نذیر شہید کے بہیمانہ قتل پر افسردہ تھے ، میں نے ان سے عرض کی کہ ڈاکٹر نذیر شہید کا ذکر نہ کرنا میری سخت بھول ہے اور میں اپنے حافظے کہ کوس رہا ہوں مگر میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں یہ قرض اور فرض پورا کروں گا ۔
ڈاکٹر نذیر شہیدکمزور نحیف جسم و جان مگر مضبوط فولادی عزم اور قوت ارادی کے مالک انسان تھے۔آپ کا آبائی قصبہ تیہنگ ضلع جالندھر تھا جہاں سے آپ کے والد ضلع فیصل آباد منتقل ہوگئے۔پھر آپ کے والد نے ڈیرہ غازی خاں جیسے دور افتادہ ضلع میں ’’فاضل پور‘‘ میں قیام کرنا پسند کیا۔ یہیں ڈاکٹر نذیر شہید کی ولادت ہوئی اور اسی علاقے میں تعلیم کا سلسلہ مکمل کیا۔
ڈاکٹر نذیر شہید اپنے ایک دوست کی وساطت سے جماعت اسلامی کے لٹریچر کی طرف متوجہ ہوئے۔حق گوئی کی پاداش میںبارہ مرتبہ زنداں میں ڈالے گئے۔ڈاکٹر نذیر شہید دین کے سچے خادم، اطاعت نظم سے سرشار، حکمت و بصیرت کا مرقع، جرات و ہمت کے کہسار، مثالی کارکن اور کامیاب داعی تھے۔ ضلعی حکام کی جانب سے آپ کو زبان بندی کے احکامات ملتے تب بھی آپ اپنے دورے جاری رکھتے۔ ایک مرتبہ زبان بندی تھی تونسہ شریف کے نزدیک کوٹ قیصرانی پہنچے نماز کے بعد مسجد میں کھڑے ہوگئے اور اپنی تقریر کا آغاز یوں کیا۔ ’’میری زبان بندی ہے اس لیے میں تقریر نہیں کرسکتا۔ البتہ ذرا حال احوال بتائے دیتا ہوں۔ اور یوں ایک لمبی تقریر کر ڈالی۔ستر کے الیکشن میں جماعت نے انہیں ڈی جی خاں کی سیٹ نمبر ایک پر نامزد کیا۔ڈاکٹر نذیر شہید جاگیر دار تھے اورنہ تمندار، وڈیرے اور نہ پیر تھے۔،درویش خدامست،حقیقی عوامی درد رکھنے والے۔ عوام سے آپ کا قریبی رابطہ تھا۔ وہ عوام سے کہتے کہ ووٹ فروخت نہ کرناکیونکہ یہ قوم کی امانت ہے۔ ووٹ کسی آزاد امیدوار کو نہ دینا کیونکہ یہ اسمبلی میں جاکر عموماً بک جاتے ہیں۔
ووٹ ضمیر کی آواز ہے اس لئے اسے کسی جاگیر دار، تمندار، سرمایہ دار کے ڈر کی وجہ سے استعمال نہ کرنا۔
شہید نے تمندارانہ نظام استبدادسے سہمے ہوئے لوگوں کو ایک ولولہ تازہ دیا۔ سردار اور تمندار کے مقابل کھڑا ہونے کی جرات رندانہ کی بنیاد رکھی۔ شہید کا یہ قدم عوام کی سچی محبت کا مظہر تھا۔ اس لیے لوگوں نے آپ کا ساتھ دیا۔ضلع ڈیرہ غازی خاں سے ڈاکٹر نذیر شہید قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہو کر سامنے آئے۔ اس موقع پر ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا کہ قومی اسمبلی میں جو ایم این اے ڈھاکہ جائے گا وہ واپسی کا ٹکٹ نہ لے۔ہم اس ممبر کی ہڈیا ں توڑ دینگے۔ ہڈیاں تو نہ ٹوٹیں البتہ ملک ٹوٹ گیا۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید نے دو ماہ تک مشرقی پاکستان کا دورہ کیا
بھٹو نے ادھر تم، ادھر ہم کا نعرہ لگایا اور بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔
بھٹو کو ڈاکٹر نذیر کی عوامی مقبولئت اور حق گوئی سے پر خاش تھی۔ اپریل بہتر میں بھٹو کھر ملاقات گورنر ہاوئو س لاہور میں ڈاکٹر نذیر احمد کو قتل کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ پہلا قاتلانہ حملہ چھ جون بہتر کو مطب میں ڈاکٹرنذیر شہید پر کرایا گیا جس میں آپ بال بال بچ گئے مگردوسراحملہ آٹھ جون بہتر بروز جمعرات شام کو کیا گیا۔آپ اپنے مطب پر بیٹھے تھے، قاتل نے اچانک اندر آکر یکے بعد دیگر ے آپ پر تین فائر کردیئے۔ آپ کو ہسپتال لے جایا گیا۔جہاں آپ مرتبہ شہادت پر فائز ہوگئے۔
یہ ہے ووٹ کو عزت دو کانعرہ لگانے والے بلاول بھٹو کی پارٹی کاا صل چہرہ!
٭…٭…٭