دْنیا جانتی ہے سی پیک منصوبہ پاکستان کی ترقی وخوشحالی کا اہم زینہ ہے، اس اہم ترین اور کامیاب ترین منصوبہ بندی نے پاکستان اور چین کی دوستی کو نہ صرف اور مضبوط کردیا تھا بلکہ تجارت اور ترقی کی راہوں کو بھی مزید کشادہ کردیا تھا، جب سے اس منصوبہ کا آغاز اور اس پر عمل درآمد کاکام شروع ہوا تودشمنوں کی نظر میں کانٹے کی طرح چبھنے لگا، ظاہر ہے کہ اِردگرد کے بہت سے حاسدین پاکستان کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے ہر ایک کے اپنے اپنے الگ اور مذموم مقاصد پاکستان کے ساتھ کارفرما ہیں، بھارت کے الگ مسائل ہیں جبکہ امریکہ کے الگ مفادت اور خود غرضیاں پاکستان کیساتھ وابستہ رہی ہیں۔ دْنیا بھر میں دیگر چند ایک مثالوں کے علاوہ یہ پاکستان کے کھلے دشمنوں اور حاسدین میں شمار کئے جاسکتے ہیں، اگرچہ اس منصوبہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ خطہ کے تمام ممالک کو فائدہ پہنچے گا۔ سی پیک کی ترقی سے روزگار اور ترقی دونوں راستے ہموار ہوں گے۔ لیکن دوسری طرف اس منصوبہ کے آغاز کیساتھ ہی بھارت نے دہائیاں دینی شروع کردیںبلکہ اب تو کھلم کھلا دھمکیاں دینا بھی شروع کردی ہیں دوسری طرف امکان ہے کہ2030ء تک گوادر پورٹ اور سی پیک کے منصوبے مکمل ہوجائینگے اس سے بلوچستان اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کو بھی فائدہ حاصل ہوگا۔ اگرچہ گوادر پورٹ تو مکمل بھی ہوچکی ہے اور وہاں اب بحری جہاز لنگر انداز بھی ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ تاہم یہ عمل کچھ سست روی کا شکار ہوچکا ہے۔ نجانے کیوں موجودہ دورِ حکومت میں دیگر اور منصوبہ جات بھی سست روی کی عمدہ مثالیں قائم کرچکے ہیں، اندرونی وبیرونی سرمایہ کاری بھی گوادر میں ترقی کے منصوبوں کی تکمیل کا انتظار کر رہی ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ قوموں کی تاریخ میں کچھ ایسے منصوبہ جات ہوتے ہیں جو اْن قوموں کی تقدیر بدل دیا کرتے ہیں۔ سی پیک منصوبہ کو بلا شبہ ایسے ہی منصوبہ جات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ان منصوبہ جات کا آغاز کب اور کیسے ہوا یہ الگ بحث ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہرحال اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا بیڑہ گزشتہ حکومت نے اْٹھایا اور اس میں اپنی نہ صرف بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا بلکہ عملی طور پر اس پر کام کا آغاز بھی کروا دیا گیا۔ن لیگ نے کسی بھی دبائو میں آئے بغیر اس منصوبہ پر کام کو تیزی سے جاری رکھا۔ موجودہ حکومت نے شروع میں تواِس پر زیادہ توجہ نہیں دی بلکہ یہ کہا کہ اس منصوبہ پر نظرثانی کی جائے گی لیکن بعد میں حالات وواقعات کو دیکھتے ہوئے اس میں دلچسپی کا عنصر دکھاتے ہوئے اس بنے بنائے تیارشدہ منصوبے کو بھی اپنے سر باندھنے کی ذمہ داری لی۔ چین کے حوالے سے تو حالات کسی طرح سنبھال لیا گیا لیکن دوسری طرف امریکہ سرکار کی سازشیں پھر سے شروع ہوگئیں اور انہی دنوں امریکی چہرہ کھل کر بے نقاب ہوگیا جب امریکی نائب وزیرِخارجہ برائے جنوبی ایشیاء ایلس ویلز نے پاکستان کو خبردار کیا کہ پاکستان سی پیک منصوبے کا آغاز کرنے سے باز رہے کیونکہ اس منصوبہ سے پاکستان کا طویل المدتی معاشی نقصان ہوگا اور فائدہ تو صرف چین کو ہوگا اور یہ منصوبہ صرف اور صرف چین کیلئے ہی منافع بخش ہے اور چین مختلف ممالک کو ایسے معاہدے کرنے پر مجبور کر رہا ہے امریکہ اصل میں چین کی بڑھتی ہوئی عالمی شہرت اور ترقی سے بھی خاصا پریشان ہے۔ خود کو سپر پاور کہلوانے والا دراصل یہ برداشت کرنے کو تیار ہی نہیں ہے کہ کوئی اور اْنہیں کراس بھی کرسکتا ہے اور دیر تک سپر پاور کہلوانے والی طاقت ثانوی حیثت بھی اختیار کرسکتی ہے۔ ایلس ویلزکے بقول پاکستان میں سی پیک منصوبے کو گرانٹ کے طور پر لیا جارہا ہے جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے کیونکہ امریکہ نے پاکستان کو سی پیک سے بہتر آفر دی ہے اور سی پیک سے بہتر ماڈل پیش کرنے کی دعوت بھی دی ہے۔ تاہم دوسری طرف چین نے امریکی الزامات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اْن تمام خدشات کا بھرپوراور موثر جواب دیدیا ہے۔ پاکستان میں چین کے سفیر پائو چنگ نے واضح کیا کہ سی پیک منصوبہ پاک چین دوستی کی نشانی ہے۔ جس سے75000 پاکستانیوں کو بلاواسطہ اور2لاکھ افراد کو بالواسطہ روزگار ملا ہے یہ الزام سراسر غلط ہے کہ روزگار کے مواقع خود چائنہ اپنے لوگوں کو ہی فراہم کر رہا ہے۔ اسکے علاوہ چین مغربی ممالک کی طرح پاکستان سے قرض کی ادائیگی بروقت کرنے کا مطالبہ بھی نہیں کریگا اور اس سلسلے میں پاکستانی حکومت کو سہولت اور آسانی فراہم کی جائیگی۔ سی پیک کے تحت پاکستان پر چینی قرضوں کا مجموعی حجم5اعشاریہ8ارب ڈالر ہے جبکہ باقی کمپنیوں کے قرضے جو FDIکے زمرے میں آتے ہیں جو انہوں نے کما کر واپس کرنے ہیں نہ کہ حکومت کو دینے ہیں۔ المختصر امریکہ کا سی پیک پر کھل کر مخالفت کرنا افسوس ناک بات ہے۔ امریکہ کی طرح پاکستان بھی ایک آزاد ریاست ہے اور اپنے فیصلوں میں خودمختار ہے، اندرونی معاملات میں مداخلت جائز نہیں ہے۔ حاسدین اور پاک چین مخالف قوتیں اس دوستی میں دراڑ ڈالنے کیلئے ہمہ وقت مصروف ہیں لیکن ایسے مذموم مقاصد کو ناکام بنانا ہمارا فریضہ ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024