برصغیر کی آزادی ، خودمختاری اور برطانوی استعمار سے نجات حاصل کرنے کے علاوہ ایک آزاد، خود مختار اور اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام کے لئے برصغیر کے مسلمانوں نے بابائے قوم حضرت قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے جوجدوجہد کی اس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ قیام پاکستان کے بعد ملک میں کئی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھی جنم لیا۔ اگرچہ قیام پاکستان سے پہلے بھی برصغیر میں مسلم لیگ کے علاوہ بھی کئی مذہبی و سیاسی جماعتیں موجود تھیں لیکن حصول آزادی کے لئے جانے کی جدوجہد میں آل انڈیا مسلم لیگ کا کردار ہی سے نمایاں تھا۔ قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی انتشار نے بھی کئی سیاسی جماعتوں کوجنم دیا لیکن ہر جماعت کے اغراض و مقاصد نہ صرف محدود تھے بلکہ وہ مکمل طور پر عوامی مفادات سے بھی مطابقت نہ رکھتے تھے،
اس پس منظر میں یہ اعزاز صرف پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کو حاصل تھا کہ انہوں نے دور ایوب میں ملکی مفادات کے منافی بعض اقدامات خاص طور پر معاہدہ تاشقند میں ایوب خان کی پالیسی اور مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لئے قومی موقف سے انحراف کے بعد نہ صرف حکمران جماعت سے علیحدگی اور وزارت خارجہ کے منصب سے الگ ہونے کا اعلان کیا بلکہ ملک کی سب سے بڑی اور مقبول عوامی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی بھی بنیاد رکھی۔ اس طرح 30 نومبر 1967ء کو لاہور میں ایک اجتماع کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ پارٹی کے منشور میں عوام کے مفادات کو جو بنیادی اہمیت دی گئی تھی اس کی بنیاد پر یہ جماعت ملک کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی اور یحیٰی خان کے دور میں ہونے والے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری اور انتخابات میں کامیابی کے حوالے سے یہ جملہ ہر شخص کی زبان پر تھا کہ بھٹواگر بجلی کے کھمبے کو بھی ٹکٹ دے دیں تو وہ بھی انتخابات میں اپنے حریف امیدوار کو شکست دے کر کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔ اس سے بڑی کسی سیاسی جماعت کی مقبولیت اور کیا ہو سکتی ہے۔ بھٹو دور میں ملک کی بڑی بڑی صنعتوں، بنکوںاور مالیاتی اداروں کے علاوہ تعلیمی اداروں کو بھی قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ اگرچہ ملک کے سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقے نے اس کی مخالفت کی لیکن عوام کی بھاری اکثریت نے پارٹی کا ساتھ دیا۔ ان اداروں کے ملازمین کو ملازمت کا تحفظ حاصل ہوا اور وہ پوری دلجمعی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے لگے۔ تعلیم کا معیار، ہوا۔ جناب بھٹو کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اس سرزمین بے آئین کو پہلا اسلامی آئین دیا جس کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مکمل تائید و حمایت کی یہاں تک کہ بعض آزاد خیال اورسوشلزم پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ارکان اسمبلی نے آئین کی مکمل حمایت کی اور اس آئین کی رو سے پہلی مرتبہ اسلامی نظریاتی ریاست کے تقاضوں کو پورا کیا گیا۔ بھٹو صاحب نے عالم اسلام نے اتحاد کو فروغ دینے کے لئے پاکستان میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا پہلا اجلاس لاہورمیں طلب کر کے تمام آزاد اسلامی ملکوں کے قائدین کو اس میں شرکت کی دعوت دی اور ان کی دعوت پر تمام اسلامی ممالک کے سربراہ کانفرنس میں شریک ہوئے جس سے عالمی سطح عالم اسلام کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو فروغ حاصل ہوا اور مسلمان ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات کو فروغ ملا خاص طور پر تمام اسلامی ملکوں سے پاکستان کے تجارتی ، ثقافتی سفارتی تعلقات میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ عالمی برادری میں بھی پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوا۔ غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جس میں بھٹو شہید نے انقلابی اقدامات کے ذریعے عوام کا مقدر بدلنے کی کوشش نہ کی ہو۔ ان کے دور میں ہی پہلی مرتبہ پاکستان میں صحافیوں کو رہائشی سہولتوں کے لئے پلاٹ الاٹ کئے گئے۔ لاہور میں 1600 ایکڑ پر اقبال ٹائون کی بنیاد بھی اسی دور میں رکھی گئی غرض ان کے انقلابی اقدامات نے ملک کی تعمیر وترقی کی رفتار کو تیز تر کر یا اور بیرونی ممالک میں سب سے زیادہ افرادی قوت بھٹو شہید کے دور میں ہی برآمد کی گئی جس سے پاکستان نے زرمبادلہ کمانے کی زبردست صلایت حاصل کی۔ سب سے زیادہ پاکستان سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک میں روزگار کے مواقع حاصل کئے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کا یہ مشن آج بھی پی پی پی جاری رکھے ہوئے ہے۔ چنانچہ بے سہارا اور غریب خاندانوں کو جن کی تعداد 70 لاکھ سے زیادہ ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ اعزاز بھی پاکستان پیپلزپارٹی کو حاصل ہے کہ اس نے تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی بڑی تعداد میں بے سہارا اور غریب خاندانوں کو ایک خاص پروگرام کے تحت مالی امداد فراہم کر کے انہیں زندہ رہنے کا حوصلہ بخشا ہے۔ اسی طرح سرکاری اداروں میں ساڑھے بارہ لاکھ سے زائد محنت کشوں کو ان اداروں کے مالیاتی حصوں میں شریک کر لیا گیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو شہید کی طرح گراس روٹ لیول تک پارٹی کو مضبوط کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی اپنے 52 سال میں آغازکرنے جا رہی ہے۔ اس میں پارٹی کے قائدین ، ورکرز ، کارکن کومتحد ہو کر بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئے۔ بلاول بھٹو زرداری محترمہ بے نظیربھٹو شہید کے حقیقی جانشین ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024