دہشت گردی یا ٹیررازم کے تصور نے آج سے 1500 سال قبل اس وقت جنم لیا تھا جب چند یہودی zealots نے کچھ رومن سپاہیوں کو قتل کیا اور اُن کی پراپرٹی کو بھی تباہ کر دیا لیکن دہشتگردی کی اصطلاح کا استعمال دراصل پہلی بار 1793ءمیں فرانس کے انقلاب کے حوالے سے اس وقت سامنے آیا جب Reign of Terror کی ٹرم استعمال کی گئی اور افراد یا گروہوں کی بجائے ریاستوں کو دہشتگرد کہا گیا۔ روس کے انقلاب کے وقت بھی جو مظالم ڈھائے گئے اس کو بھی دنیا نے ریاستی دہشتگردی کہہ کر پکارا چونکہ اقتدار پر قابض رہنے کیلئے طاقت کا استعمال ہو رہا تھا۔ اسکے بعد دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر بیسویں صدی کے وسط سے ہی جب آئر لینڈ کے گوریلوں اور برطانیہ اور فرانس کی مقبوضہ نوآبادیوں کے لوگوں نے اپنی آزادی کے حقوق کیلئے کارروائی شروع کی تو اس کو انفرادی اور گروہوں کے ٹیررازم کا نام دیا گیا۔ ساٹھ کی دہائی میں جب سرد جنگ زوروں پر چلی گئی اور مشرق وسطیٰ میں فلسطینیوں نے اپنے حقوق مانگے اور خونیں معرکے شروع ہوئے تو پھر مغربی اصطلاح میں ٹیررازم انٹرنیشنل یا بین الاقوامی ہو گیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ بین الاقوامی ناانصافیوں نے بین الاقوامی دہشت گردی کو جنم دیا اس لئے دنیا کے دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں جابر اور قابض طاقتیں ان محکوم اور مظلوم قوموں کے خونیں معرکوں کو دہشتگردی کہتی ہیں وہاں اپنی آزادی کے حصول اور بیرونی تسلط کو ختم کرنے کیلئے عسکری لحاظ سے یہ کمزور اور دردناک عذاب کا شکار طبقے اپنی جدوجہد کو جنگِ آزادی گوریلا وار یا طاقتور کےخلاف جہاد کہتے ہیں جس کا مقصد غاصبوں کے تسلط سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ نائن الیون سے پہلے امریکہ اسرائیل ہندوستان اور مغرب جس چیز کو آنکھیں بند کر کے دہشتگردی کہتے رہے‘ اسکی جڑیں دراصل فلسطینی بستیوں میں قید نہتے مسلمانوں کی بے بسیوں شتیلا اور صابرہ مہاجر کیمپوں میں انسانیت سوز مظالم کا شکار ہونے والوں کی آہوں، چیچن قوم کے ساتھ زیادتیوں اور کشمیر کی وادی کے قبرستانوں کے اُن سناٹوں میں تھیں جہاں تقریباً 90 ہزار بے گناہ کشمیری بچے، بوڑھے اور درندگی کا نشانہ بننے والی کئی حاملہ عورتوں کے جسدِ خاکی دفن ہیں۔
نائن الیون کو جو ہوا وہ اگر واقعی صحیح واقعہ ہے تو یہ ایک چند افراد کی قابل مذمت گروہی دہشتگردی تھی جس میں ہوائی جہازوں میں سوار بے گناہ مسافروں کی جانیں تلف ہوئیں اور زمین پر بھی مالی و جانی نقصان ہوا لیکن اگر یہ واقعی ایک ڈرامہ تھا تو جو عراق اور افغانستان پر قبضے، پاکستان کی طاقت کو توڑنے اور ایران کو دھمکانے کے مقاصد کے حصول کیلئے کیا گیا تو پھر یہ اپنے ہی عوام کے خلاف ریاستی دہشتگردی تھی۔ مغربی قلمکاروں نے اس سلسلے میں بہت کچھ لکھا ہے اور کافی کچھ لکھا جا رہا ہے لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ دہشتگردی کا ایک بدترین واقعہ تھا تو پھر بھی اِس واقعے کے ڈانڈے امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق غلط خارجہ پالیسی سے جا ملتے ہیں چونکہ اس اندوہناک واقعے میں ملوث انیس افراد کا تعلق مشرقِ وسطیٰ سے ہی تھا۔ لیکن اسکے بعد ہوا کیا بجائے مشرقِ وسطیٰ کے مسائل حل کرنے کے دوسری جنگِ عظیم میں ہیروشیما اور ناگا ساکی شہروں کےخلاف استعمال ہونے والے 20 کے ٹی بموں سے کچھ تھوڑے ہی کم زوردار بم، بنکر بسٹر اور ڈیزی کٹر کی صورت میں ایسے بے رحمانہ طریقے سے افغانستان پر گرائے گئے کہ چوہے بھی اپنے گہرے بلوں میں مردہ پائے گئے اس ریاستی دہشتگردی نے افغانستان میں مزاحمتی جنگِ آزادی اور پاکستان میں حکومت کے خلاف دہشتگردی کو ہَوا دی۔ پاکستانی ریاست پر حملے کی دو بڑی وجوہات تھیں ایک تو پاکستان کے اندر وہ طبقے جو امریکہ کی جنگ کو وار آن ٹیرر کی بجائے بجا طور پر وار آف ٹیرر سمجھتے تھے پاکستانی حکومت کے امریکی حکومت کے ساتھ تعاون سے ناراض ہو گئے۔
دوسری طرف چالیس ہزار پاکستانیوں کا خون قربان کرنے، ہوائی اور زمینی راستے دینے اور بندرگاہیں اور ہوائی اڈے فراہم کرنے کے باوجود امریکہ کا پاکستان کے ساتھ رویہ انتہائی منافقانہ بلکہ دشمناناں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے پاکستانی انتہا پسند گروہوں اور پاکستان سے ناراض امریکہ، دونوں کا ہدف پاکستان کے ریاستی ادارے خصوصاً فوج، آئی ایس آئی اور پولیس تھے۔ ریاست کےخلاف اس دنگل میں عاقبت نااندیش مذہبی جنونی اور جرائم پیشہ لوگ بھی شامل ہو گئے۔ بیرونی طاقتوں نے پاک فوج اور آئی ایس آئی کو دہشت گردوں کا ساتھی کہا اور دہشت گردوں نے مغربی ٹیکنالوجی اور انٹیلی جینس حاصل کر کے اُن کے مکمل مالی تعاون کیساتھ مہران اور کامرہ کے ہوائی اڈوں پر حملے کئے۔ یہی وہ نقطہ ہے جس پر آ کر افغانستان سے شروع ہونےوالی وار آف ٹیرر پاکستان کے اندر داخل ہو کر پاکستان کیلئے بجا طور پر وار آن ٹیرر بن گئی اس جنگ کا مقابلہ کرنے کیلئے بارود کا جواب صرف بارود سے دنیا کافی نہیں۔
ملٹری کا محدود استعمال تو پچھلے دس سالوں سے ہو رہا ہے جس سے حالات بہتر ہونے کی بجائے خراب ہوئے اب ایک تازہ فوجی یلغار اس لئے صحیح راستہ نہیں کہ اس سے ہمارے مسائل ختم ہونے کی بجائے اور بڑھیں گے۔ ٹیرر ازم اور Militancy سے جان چھڑانے کیلئے ہمیں کثیر الجہتی حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں بین الاقوامی سطح پر ایک سیاسی و سفارتی مہم چلانے کی ضرورت ہے جو امریکہ اور اتحادیوں کے افغانستان سے مکمل اور غیر مشروط انخلا کیلئے ایسی راہ ہموار کرے کہ پہلے مرحلے میں ایک بین الاقوامی امن فوج افغانستان میں پیدا ہونے والے خلا کو پورا کرے۔ پاکستان کے اندر قبائلی پٹی میں رہنے والے بااثر لوگوں سے رابطے پیدا کئے جائیں، اس سلسلے میں انٹیلی جنس اپریشن انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لوگوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے، پینے کے پانی اور خوراک کو میسر کرنے کا بندوبست ہو۔ قاتونِ شہادت کو م¶ثر بنایا جائے۔ جج جیوری اور گواہوں کی جانوں کی حفاظت کا بندوبست ہو۔ کراچی میں نبرد آزما سیاسی جماعتوں کے فوجی دستے ہتھیار رکھ دیں۔ پارلیمنٹ دہشتگردی کے خلاف قانون سازی کرے۔ حکمرانی کو مضبوط کر کے Proactive حکمتِ عملی کے ساتھ دہشتگرد کو واردات سے پہلے پکڑنے اور اسکے تباہی کے منصوبوں کو ناکام بنانے پر توجہ مرکوز ہو اور سزائیں فوری اور سخت ہوں، مجرموں کو تحفظ نہ دیا جائے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ قبائلی پٹی میں دہشتگردی کی جڑیں ہیں، بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی طرف سے انسرجینسی پورے جوبن پر ہے اور سپریم کورٹ کےمطابق کراچی میں سیاسی کشمکش ایک خونیں اور مجرمانہ دائرے میں داخل ہو چکی ہے۔ ایسی صورتحال کو کسی ریاست کےخلاف فورتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے جو افواج کے استعمال کے بغیر ملکوں کو بالکل کھوکھلا کر دیتی ہے۔
اسکے علاوہ پاکستان کےخلاف ایک اور یلغار ڈرون حملوں کی ہے جو ففتھ جنریشن جنگ ہے اس لئے پاکستان اب حالتِ جنگ میں ہے۔ اِن حالات کو مزید گھمبیر بنانے کیلئے را، موساد اور سی آئی اے والے مہربان اپنی بہترین کارکردگی دکھا رہے ہیں، ہر دشمن ایسا کرےگا۔ اِن مشکل ترین حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے ہماری افواج، آئی ایس آئی، فرنٹیئر کور، رینجرز، پولیس اور آئی بی کو ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آئے چلنا ہو گا۔ پوری قوم کو چاہئے کہ ہماری اِن فورسز پر آوازے کسنے والوں کی حوصلہ شکنی کرے اور انکے حوصلے بلند کرنے کیلئے اِن کیساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہو جائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024