مشرق وسطیٰ میں عربوں اور ایران کے حوالے سے ماضی میں ہم نے جو بھی لکھا اس حوالے سے ہم سے اکثر سوال کیا جاتا رہا ہے کہ ہم عربوں کے اور خاص طور پر سعودی عرب کے اتنے زیادہ حامی کیوں ہیں؟ اور ایران کے حوالے سے ہمارے جو تحفظات اور اعتراضات رہے ہیں وہ کیوں ہیں؟ آج ہم ان سوالات کا جواب رقم کر رہے ہیں۔ ایران کے بارے میں جب بھی مثبت بات ہمارے سامنے آئی جیسا کہ حال ہی میں صدر احمدی نژاد کا اسلام آباد میں مسلکی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے خاتمے اور شیعہ و سنی اختلاف کو سیاسی طور پر زائل کرنے کا معاملہ سامنے آیا تو ہم نے فوراً انہیں اور شاہ عبداللہ کو ایک ہی طرح کی محبت بھری آنکھوں سے دیکھا ہے۔ سعودی عرب کے مفتی اکبر شیخ عبدالعزیز آل شیخ کے مسلسل مثبت کردار کو دیکھا ہے اور جب ہم نے مرحوم سعودی ولی عہد اور وزیر داخلہ شہزادہ نایف بن عبدالعزیز کی عرفات میں بین الاقوامی میڈیا کانفرنس کے سامنے ایران کے بارے میں نہایت مثبت، دور اندیش اور مدبرانہ بات چیت خود سنی تو ہمیں مشرق وسطیٰ میں عربوں بالخصوص سعودی عرب کی بھرپور حمایت پر اطمینان قلب میسر آیا تھا لہذا ہم نے اپنے نظریات پر اپنے آپ کو قائم رکھا۔ ایران کے روحانی راہنما جناب علی خامنائی نے برصغیر کے حوالے سے اور بالخصوص کشمیریوں کے حق میں جب بات کی وہ ہماری محبت کا مرکز رہے ہیں۔
یہی بات سیکولر حکمران معمر قذافی کے حوالے سے ہے۔ ہم ان کے سیاسی اور مذہبی نظریات سے ہرگز متفق نہ تھے۔ مگر ہماری نظر میں معمر قذافی کی عزت اسلئے تھی کہ انہوں نے کھل کر اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی تھی اور وہ اپنی دولت کو مفلس مسلمان افریقی سرزمینوں کی ترقی جو ارتقاءکےلئے خرچ کر کے ان کو سفید فام استعماری رویوں سے نجات دلانے کی کوشش کر رہے تھے ورنہ ان کا شریف النفس سعودی شاہی خاندان سے معاندانہ رویہ ہمیں سخت ناپسند تھا اور سراسر غیر حقیقت پسند دکھائی دیتا تھا۔ شاید اپنی انہی غلطیوں کی انہیں سزا بھی ملی ہے۔
ہم علامہ محمد اقبال کے فکر سے بہت زیادہ متاثر ہیں کہ وہ عربی زبان و ادب کے ماہر اور 12 سال تک لاہور میں عربی استاد رہنے کی وجہ سے قرآن و حدیث اورسیرت النبیﷺ کے حقیقی گوشوں سے آگاہ ہیں۔ انکی بہت سی شاعری میں ہمیںتوحیدی تغریات، قرآنی مفاہیم، سرزمین حجاز کی مدنی ریاست کی خوشبو محسوس ہوتی ہے مگر انہوں نے جو نثر میں مقالات لکھے ان میں آسان انداز میں مفکر محمد اقبال کھل کر سامنے آتے ہیں۔ ان کی زندگی میں یہ مقالات مختلف جرائد میں شائع ہوئے جنہیں بعد ازاں م¶لفین نے کتابی صورت دی۔ ایک مجموعہ مقالات اقبال کے نام سے سید عبدالواحد معینی نے مرتب کیا تھا۔ جسے مئی 1963ءمیں شیخ محمد اشرف نے لاہور میں شائع کیا۔ ان مقالات میں اقبال ایرانی علماءکے تاریخی طور پر خود کو ولایت فقہہ کے دینی مناسب پر فائز رکھنے اور بادشاہ کو اپنے زیر اثر رکھنے کے رویے پر بھی بحث کرتے ہیں۔
ہم نے جب اقبال کی اس خواہش کا بار بار جائزہ لیا تو ہمیں یہ بات موجودہ تقسیم شدہ مسلمان دنیا میں وقوع پذیر ہونی ناممکن نظر آئی جیسے پین اسلام ازم کی جمال الدین افغانی کی جائز خواہش تمام تر کوششوں کے باوجود نامکمل ہی رہی تھی۔ سعودیوں سے وافر محبت کی وجہ سعودی علماءو شیوخ کی پاکستان کو اسلام پر بننے والی واحد عالمی ریاست کہنا ہے۔ ان کے بقول تاریخ عالم میں صرف پاکستان ایسی ریاست ہے جسے برصغیر کے مسلمانوں، سیاسی فیصلہ سازی سے از خود اپنی پسند سے ہی تو وقوع پذیر کیا تھا۔ پھر سعودیوں نے ہر عہد میں بطور خاص شاہ فیصل سے لیکر شاہ عبداللہ تک پاکستان کی بھرپور مالی،سیاسی، اخلاقی، دفاعی انداز میں مدد کی ہے۔ یہ بات حدیث رسولِ امین ہے کہ ”جو احسان کرنے والے انسان کا شکر گذار نہ بنے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گذار کیسے بن سکتا ہے؟ ”یوں ہم سعودی شاہی خاندان کے مسلسل احسان مند ہیں لہذا ہم نے ان سے بھرپور محبت کی ہے اور ان کی بھرپور حمایت صرف ان کی پاکستان سے نیکیوں اور ساتھ ساتھ مسلمان دنیا سے بھی عظیم تاریخی محبت، خدمت، دکھ اور درد میں فوراً اپنا سب کچھ نچھاور کرتے رویے کی بنا پر کی ہے۔ ایران سے ذرا سا شکوہ ہے کہ وہ ماضی میں بھارت کے ساتھ چند خفیہ معاہدوں پر کاربند تھا جس کا ہدف پاکستان کو کمزور کرنا تھا مگر بھارت کے اچانک ایران کو تنہا چھوڑ کر جارح اور استعماری امریکہ کے ساتھ جا ملنے سے ایران دوبارہ پاکستان کی طرف لوٹ آیا ہے۔ ہم پاکستان اور ایران کی حالیہ محبت کو احترام سے دیکھتے ہیں اور اس کی بقا کی دعا کرتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی ریارستیں جو امریکی مدد کی محتاج ہیں وہ بالآخر اس محتاجی سے نجات پائیں گی۔ ہم نے ماضی میں عرب ریاستوں جن میں متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، اومان، بحرین اور سعودی عرب سے بھرپور عسکری، سیاسی اور تجارتی معاہدے کی ضرورت بار بار بیان کی تھی اس کا مقصد ایران کو تنہا کرنا ہرگز نہیں تھا بلکہ مثبت طور پر عربوں کی خوف کی حالت میں بھرپور مدد کر کے انکو تنہائی اور عدم تحفظ کی نفسیاتی فضا سے باہر نکالنا تھا۔ ہمارا آج بھی موقف ہے کہ اگر ان عرب ریاستوں میں عملاً پاکستانی عسکری وجود موجود ہوتا تو امریکی افواج یوں کھلے عام عربوں کو اپنا مفتوح نہ بنا سکتیں اور نہ ہی عربوں کو ایران سے خوف زدہ کر کے اپنا اسلحہ ان پر خریدنے کی جبریت مسلط کر کے مغربی قوتیں عرب تیل آمدن ہتھیانے کا راستہ اپنا سکتی تھیں۔ ہمارے دل میں امریکی جارح استعماری افواج کےلئے کوئی عزت نہیں خواہ یہ مقام افغانستان ہو یا مشرق وسطی کی عرب سرزمینیں ہوں اگر مسلمان فوج مثلاً پاکستانی فوج ان عرب سرزمینیوں پر ہوتی تو وہ جانب دار ہونے کی بجائے بالآخر ثالثی کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دیتی اور ان کا وجود ایران عرب دشمن کے خاتمے اور ان میں نئی محبت کے عہد کو جنم دینے کا باعث ہوتا۔ علاقائی طور پر ہم پاکستان، افغانستان اور ایران کے متحدہ کردار کے متمنی ہیں۔ کاش ایسا ہو جائے کہ عرب حکومتوں میں کچھ شیعہ اور ایران میں کچھ نمایاں سنی کردار شامل کر لئے جائیں تاکہ اتحاد ملت اسلامیہ کا عملی نمونہ سامنے آئے۔ تاریخی طور پر لنڈن میں اکثر سازشیں تیار ہوا کرتی تھیں۔ شاہ عبداللہ کی کمر کا درد تھا جس کا ریاض میں آپریشن ہوا۔ وہ معمر ہیں مگر ماشاءاللہ روبصحت ہیں مگر اچانک ان کی زندگی کے بارے میں افواہ سازی ہوئی جس کے جواب میں ریاض سے سرکاری ٹی وی پر شاہ عبداللہ کی شاہی خاندان سے ملاقات کی ویڈیو دکھا دی گئی ہے۔ یہ اغیار کی سازشیں ہوتی ہیں جن میں ہمارے اپنے مسلمان ہی استعمال ہو جاتے ہیں۔ اس کی شدید مذمت ہونی چاہئے۔ مفتی اکبر شیخ عبدالعزیز آل شیخ کا نیا پیغام ہے کہ اسلامی اور عرب دنیا میں احتجاجی مظاہرے غیر اسلامی ہیں کہ ان مظاہروں سے افراتفری پھیلتی ہے جسے دشمن اسلام کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم سعودی مفتی اکبر کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ سعودی مفتی اکبر کی بات باوزن ہے۔ خدا کرے شاہ عبداللہ کی زندگی اور نیا سعودی مستقبل بین ذہن فقہی مسالک کے مابین مفاہمت اور تحمل و رواداری کا مقصد آسانی سے حاصل کر سکے اور مسلمان آپس میں مل جل کر اغیار کی دشمنی اور سازشوں کا مقابلہ کر سکیں۔ (آمین)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38