
لیجیے پاکستان ہاکی ٹیم ورلڈکپ دو ہزار تیئیس میں جگہ نہیں بنا سکی، ٹیم ناکام کیوں ہوئی وجہ جاننے کے لیے ہاکی فیڈریشن نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی کی تشکیل کے اس اعلان نے ثابت کر دیا ہے کہ قومی کھیل کیوں زوال پذیر ہے۔ جو لوگ پورا ٹورنامنٹ دیکھ کر یہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ ٹیم ناکام کیوں ہوئی وہ دم توڑتی ہاکی کو مقبولِ عام کیسے بنائیں گے۔ کیا ٹیم کے ہیڈ کوچ اور مینجر کی رپورٹ کافی نہیں۔ مینجر صاحب کھلاڑیوں کی سرزنش کر رہے ہیں، بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جیسی بھی ہے ٹیم انتظامیہ ہے، بھلے برسوں سے کام کر رہے ہیں، ناکام ہیں تو اس تباہی کے اکیلے ذمہ دار تو نہیں، البتہ ناکامیوں میں ان کا حصہ ضرور ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ سب سے پہلے ٹیم انتظامیہ کی رپورٹ کا جائزہ لیا جاتا اس کے بعد ضرورت پیش آتی تو کمیٹی بنا دی جاتی لیکن قومی کھیل کے بچے کچھے جذباتی ناقدین اور شائقین کی توجہ تقسیم کرنے کے لیے کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کیا پاکستان کی ٹیم بین الاقوامی سطح پر مسلسل کامیابیاں حاصل کر رہی تھی یا ایشیا کپ میں ناکامی غیر متوقع ہے، کیا گذشتہ پندرہ بیس برس میں ہم دو تین مرتبہ ورلڈکپ جیتے ہیں جو اس مرتبہ کوالیفائی نہ کرنے سے دھچکہ پہنچا ہے یا یہ کوئی غیر معمولی کام ہوا ہے۔ اب تو ناکامیاں معمول ہیں مسلسل ناکامیوں کے بعد بھی اگر وجہ جاننے کے لیے کمیٹی کے قیام کی ضرورت ہے تو یہ ہماری نااہلی کی تصدیق کے لیے کافی ہے۔ ایسی کمیٹیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ملک میں برسوں سے ہاکی کے نام پر ہاکی کے سوا سب کچھ ہو رہا ہے قومی کھیل کی جتنی تذلیل ہم کر سکتے تھے وہ کر چکے اب کمیٹی کمیٹی کھیلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ سینئر سپورٹس اینکر مرزا اقبال بیگ کہتے ہیں کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن میں آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے۔ ?اگر اب بھی ہاکی مافیا کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا تو پھر قومی کھیل ہاکی کا اللہ ہی حافظ ہے۔آصف باجوہ کے قریبی دوست دانش کلیم کبھی سینئر تو کبھی جونئیر ٹیم کی انتظامیہ میں شامل ہوتے ہیں پی ایچ ایف کے سیکرٹری کے ایک اور دوست خواجہ جنید کبھی کوچ تو کبھی مینیجر بن جاتے ہیں، کیا کوئی پوچھنے والا نہیں؟؟؟
پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک اشتہار جاری کیا ہے جس کے مطابق کرکٹ بورڈ بہترین لوگوں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے اچھی شہرت کی حامل ایچ آر کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔ یہ اشتہار بھی ہاکی والوں کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی طرح آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ کیا کرکٹ بورڈ ایک نیا ادارہ ہے، کوئی ایچ آر کمپنی کیسے کسی اچھے ہیڈ کوچ یا اچھے چیف سلیکٹر، اچھے سلیکٹر، اچھے فیلڈنگ، بیٹنگ، باؤلنگ کوچ بارے تجاویز دے سکتی ہے۔ جب کرکٹ بورڈ کا چیئرمین ایک سابق کپتان ہو اور وہ یہ ان عہدوں پر اچھے افراد کی تعیناتی کا فیصلہ نہ کر سکے تو ایک کمپنی جس کا کھیل سے کوئی تعلق ہی نہ ہو وہ یہ سب کیسے کر سکتی ہے۔ پھر برسوں سے مختلف عہدوں کی سربراہی کرنے والے اگر آج تک اچھے لوگوں کی نشاندہی کا ہنر نہیں سیکھ سکے تو پھر ان کی اپنی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔ یہاں لوگ کلبوں کی سکروٹنی کی ذمہ داری اکاؤنٹنگ فرم کو دینے پر حیران ہو رہے تھے۔ یہ اشتہار تو ثابت کرتا ہے کہ بورڈ افسران یہ فیصلہ کرنے کے اہل بھی نہیں ہیں کہ کسے ملازمت پر رکھنا ہے اور کسے مسترد کرنا ہے۔ اگر بھاری تنخواہ پر ایچ آر ڈائریکٹر رکھنے کے باوجود اسے مشورے کے لیے ایک کمپنی کی ضرورت ہے تو پھر ڈائریکٹر ایچ آر کی کیا ضرورت ہے۔ اس صورتحال میں تو ڈائریکٹر ایچ آر اور اس کے ماتحت کام کرنے والے سب افراد کی جگہ کسی ایسی کمپنی سے نیا سٹاف بھرتی کر لیا جائے تاکہ روز روز کی مشاورت اور خرچے سے بچا جا سکے۔ اس شعبے کی کارکردگی کے حوالے سے بہت سی باتیں ہیں لیکن انہیں آئندہ کے لیے چھوڑتے ہیں۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر عارف حسن بارے ٹویٹ کیا ہے کہ کھیلوں میں بری کارکردگی کے جائزہ اجلاس میں سپورٹس کے ذمہ داروں نے بتایا کہ ہم بے بس ہیں۔ دو ہزار چار سے یہ صاحب پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سربراہ ہیں۔اکثر وقت امریکہ میں گزارتے ہیں۔ان سے کوئی جوابدہی نہیں ہو سکتی چونکہ متنازعہ الیکشن سے منتخب ہو جاتے ہیں۔ریٹائیر بھی نہیں ہوتے"۔ جن لوگوں نے بیبسی کا اظہار کیا ہے سب سے پہلے ان سے پوچھا جائے کہ انہیں اپنا کام کرنے سے کس نے روکا ہے۔ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے والے "بابو" بھی اس تباہی میں پی او اے کی طرح برابر کے ذمہ دار ہیں۔
جناب احسن اقبال یہ کوئی نئی بات نہیں سب جانتے ہیں چند سال قبل جب آپکی حکومت تھی اس وقت بھی یہ صاحب پی او اے کے صدر تھے۔ اب ایک مرتبہ پھر آپ حکومت میں ہیں قوم کو یہ اطلاع دینے کہ بجائے کہ کون کب سے پی او اے کا سربراہ ہے کھیلوں کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ ایسوسی ایشنز کو ٹھیک کرنے کے لیے آئینی راستہ اختیار کریں کیونکہ آپ خود پاکستان میں آئین کی بالادستی کے بڑے وکیل ہیں۔ ملک میں کھیلوں کا کلچر دم توڑ رہا ہے۔ کسی ایک جگہ عارف حسن رکاوٹ ہوں گے لیکن ساری ذمہ داری ان پر ڈالنا بھی مناسب نہیں ہے۔ کیا تعلیمی اداروں میں کھیلوں کو لازمی قرار دینے، تعلیمی اداروں میں کھیلوں کو غیر نصابی کے بجائے ہم نصابی سرگرمیاں بنانے، کھلاڑیوں کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کے راستے میں بھی پی او اے رکاوٹ ہے۔ اٹھارہ برس سے عہدے پر موجود عارف حسن کا احتساب ضرور کریں لیکن سب سے پہلے حکومت کھیلوں کے فروغ اور کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود پر کام کرے۔ سپورٹس فیسٹیول اور اس طرح کے دیگر منصوبوں پر قومی خزانہ ضائع کرنے کے بجائے ڈھنگ کے کاموں پر توجہ دیں۔ جب آپ کھیلوں کے حوالے سے کچھ کرنے لگے ہیں تو ہاکی فیڈریشن کی خبر بھی لیں وہاں دو ہزار سولہ سے خالد سجاد کھوکھر بحثیت صدر کام کر رہے ہیں۔ ان سے ضرور پوچھیں کہ چھ سال میں قومی کھیل کی بہتری کے لیے کتنا کام ہوا، کچھ بہتری ہوئی یا مسلسل نیچے جا رہے ہیں۔ بہتر ہو گا سب سے پہلے قومی کھیل پر توجہ دیتے ہوئے بیانات کے بجائے بنیادی مسائل حل کریں تو یہ ملک کی خدمت ہو گی۔