بہت دن ہوئے کھیلوں کے سینئر صحافی اقبال بیگ سے بات نہیں ہو سکی تھی فون کیا اور پوچھا بیگ صاحب سنا ہے کرکٹ بورڈ کے معاملات بہت اچھے چل رہے ہیں، کھیل کی بہتری ہو رہی ہے اور کرکٹ کو بہت فائدہ ہو رہا ہے کہنے لگے "حافظ صاحب مجھے بتائیں کون سا کرکٹ بورڈ دنیا میں نوکریاں دے رہا ہے ان کے پاس پہلے ہی بھاری تنخواہوں پر لوگ کام کر رہے ہیں یہ اور لوگوں کو لا رہے ہیں دنیا بھر میں اس حوالے سے اخراجات کم کیے جا رہے ہیں۔ اگر ورلڈ ٹونٹی ٹونٹی نہیں ہوتا تو اس سے بھی مالی نقصان ہو گا کیا ان کے پاس قارون کا خزانہ ہے۔ انگلینڈ نے کب ہمیں سپورٹ کیا ہے جو اس مشکل حالات میں ان کے سامنے بچھے بچھے جا رہے ہیں کیا یہ سب کچھ وسیم خان کے لیے ہو رہا ہے کہ وہاں ان کے تعلقات ہیں۔ اسے سب اچھا کیسے کہا جا سکتا ہے۔
اب ثقلین مشتاق اور گرانٹ بریڈ برن کو ہائی پرفارمنس سنٹر میں اہم ذمہ داریاں دے دی گئی ہیں۔ جی ہاں یہ کام اس کرکٹ بورڈ نے کیا ہے جو انیس اگست دو ہزار انیس سے تیس مئی دو ہزار بیس تک صوبائی ایسوسی ایشنز قائم نہیں کر سکا، یہ تعیناتیاں اس کرکٹ بورڈ نے کی ہیں جو آج تک محکمہ جاتی کرکٹ کو بحال کرنے کے لیے جگہ نہیں نکال سکا، یہ کام اس کرکٹ بورڈ نے کیا ہے جو آج تک اپنی صوبائی ٹیموں کے لیے سپانسرز تلاش نہیں کر سکا، یہ کام اس کرکٹ بورڈ نے کیا ہے جو آج تک نچلی سطح کی کرکٹ کے لیے کوئی کام نہیں کر سکا، یہ کام اس کرکٹ بورڈ نے کیا ہے جو کرکٹرز کے معاشی قتل عام اور ٹارگٹ کلنگ کے بعد کھلاڑیوں کی معمول کی زندگی بحال کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکا، یہ کام اس کرکٹ بورڈ نے کیا ہے جس نے ملک بھر میں گراؤنڈ سٹاف کو بے روزگار کر دیا ہے۔ تاریخ میں ایسہ تباہی نہ کسی نے دیکھی نہ سنی، یہ ظلم احسان مانی اور ان کی ٹیم نے کیا ہے کہ کھیل کے میدانوں کو ہی ویران کر دیا گیا ہے۔ کرکٹرز کو کھیل چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، کوئی کوچنگ چھوڑ پھل بیچ رہا ہے تو کوئی بیٹ اور گیند سے ناطہ توڑ کر ٹیکسی چلا رہا ہے لیکن میرے ملک کے کرکٹ بورڈ کے بڑے بتا رہے ہیں کہ سب ٹھیک ہو رہا ہے، میرے ملک کے معاشی طور پر مضبوط افراد کو لگتا ہے کہ ٹاپ پروفیشنلز آئے ہیں اور سب ٹھیک ہو رہا ہے۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ کرکٹ گراؤنڈز کی حالت کیا ہو چکی ہے، کتنے کرکٹرز نے اپنا سامان بیچ دیا ہے، کتنے ہی میدان ہیں جہاں جانوروں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ یہ نام نہاد ٹاپ پروفیشنلز کوئی ایک کام بتا دیں جو انہوں نے ملکی کرکٹ کی بہتری، نظام کی مضبوطی، کھیل کے فروغ، کھلاڑیوں کی تعداد بڑھانے کے لیے کیا ہو۔ رنگ و روغن کے ذریعے ملکی کرکٹ کا سرمایہ ضائع کیا جا رہا ہے۔ اس تباہی کو اچھی اور خوشنما پیکنگ میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ظاہری بناؤ سنگھار سے حقیقت کو چھپایا جا سکے۔ ملک کے مقبول ترین کھیل کو کھلاڑیوں کا قبرستان بنایا جا رہا ہے جن کی مستقل ملازمتیں ختم ہوئی ہیں انہیں پینتالیس ہزار ماہانہ دے کر کھیل کا معیار بلند کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ پینتالیس ہزار ماہانہ دے کر بین سٹوکس، سٹیو اسمتھ جیسی فٹنس اور ویرات کوہلی، روٹ،ولیمسن جیسی کارکردگی کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔ خود بیس، بائیس، پچیس تیس لاکھ ماہانہ تنخواہیں اور مراعات وصول کر رہے ہیں جب کہ کھلاڑیوں کو دینے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔کرکٹ گراونڈز کی دیکھ بھال کے لیے پیسے نہیں ہیں، انہیں گراؤنڈ سٹاف بوجھ معلوم ہوتا ہے۔ اگر کھلاڑیوں کو ماہانہ پینتالیس ہزار دینا مناسب ہے تو پھر احسان مانی کی مراعات کیوں ختم نہیں کی جا سکتیں، پھر وسیم خان کی تنخواہ ایک لاکھ کیوں نہیں ہو سکتی، پھر تمام ڈائریکٹرز 75 ہزار ماہانہ میں کام کیوں نہیں کر سکتے۔ پھر پہلی کوچنگ اسائنمنٹ والے اعزازی کام کیوں نہیں کر سکتے۔ یہ ملک کی خدمت کا جذبہ بیس، پچیس، تیس لاکھ کی تنخواہ کے ساتھ ہی کیوں جاگتا ہے۔
پیسہ کماتے کرکٹرز ہیں اور لگایا آفیشلز پر جا رہا ہے۔ کرکٹرز پر کھیل اور روزگار کے ذرائع بند کر کے من پسند افراد کو سونے میں تولا جا رہا ہے۔ دنیا کے کامیاب کوچ لے آئیں اگر ملک میں کھیل کا ڈھانچہ ہی مضبوط نہیں ہو گا ملک میں کرکٹ ہی نہیں ہو گی، نیٹ نہیں لگیں گے، کھیل کے میدان نہیں بھریں گے، کھیلنے والے نہیں ہوں گے تو کوچنگ کس کی کرنی ہے۔
ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ چارہ گر ہیں، ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ نجات دہندہ ہیں، ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ مسیحا ہیں، ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ان سے بہتر کوئی نہیں ہے لیکن جب ہم خیالوں کی دنیا اچھی اچھی باتوں سے نکل کر میدان میں آتے ہیں، اقدامات کی طرف دیکھتے ہیں آنکھیں کھلتی ہیں تو ہر طرف ویرانی ہی ویرانی ہے۔ تباہی و بربادی ہے۔ یہ کیسے پروفیشنلز ہیں جو پروفیشنل کرکٹرز کا راستہ روک کر اپنا پروفیشن چمکا رہے ہیں۔ یہ چارہ گر ہیں یا قاتل ہیں اس کا فیصلہ ہم اپنے ملک کے کرکٹرز، کوچز، آفیشلز، منتظمین اور اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024