رسمِ دنیا بھی ہے
اللہ غارت کرے اِس وبا کو جس کی وجہ سے ماہِ رمضان المبارک پھیکا رہا اور اُس کے عوض عید کا تو جیسے تہوار نظر نہیں آیا۔ نماز تراویح کی وُہ بہاریں تو دور کی بات ، فرض نمازوں اور نماز جمعہ جیسی عبادات کے لیے بھی مسجد نہیں جا سکے اور حکم حاکم مرگ مفاجات کے تحت اپنے گھروں میں ہی تمام فرائض کی انجام دیہی کی۔ مساجد میں ختمِ قرآن کی محافل اور اعتکاف جیسی محافل میں مصروف لو گ نظر نہیں آئے۔علماء کرام اور مسجد کے مقتدیوں کے درمیان اِس ناہنجار وائرس کی وجہ سے خلاء اُس وقت مزید وسیع ہو گیا جب نماز عیدالفطرکی ادائیگی کے لیے روزہ دار پوری طرح نکل نہ سکے۔ عید گاہ سال بعد بھی پہنچ نہ سکے۔ ویسے ہمیں سال کے بعد عید پڑھنا بھی مشکل لگتا ہے جب تک اِمام صاحب زائد تکبیرات کے بارے میں یاد دھانی نہ کرا دے ہمیں نماز جنازہ اور نماز عید جیسی تکبیرات کی وجہ سے دِقت پیش آتی ہے۔ اِس عید پر اکثریت نے بھیڑ بھاڑ سے بچنے کے لیے حکومتی ہدایات کے ساتھ ساتھ علماء کی طرف سے دی گئی رعایات جس میں سنت موکدہ اور فرضِ کفایہ کا ذکر ہے اُس کا بھرپور فائدہ حاصل کیا۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر بھی پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔ اگر سابقہ رویے اپنائے جاتے تو حکومتی ہدایات اور احتیاطی عمل متاثرہوتا جس سے یہ خوفناک وبا کے پھیلنے کا اندیشہ تھا۔ چند دوست بڑی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے نماز عیدالفطر کی ادائیگی کے لیے پہنچے مگر اتنے احتیاط سے کہ نماز جب قائم ہوئی تو آخری صفوں میں جا کھڑے ہوئے اور خطبہ شروع ہوتے ہی باہر نکل آئے تاکہ کسی سے مصافعہ اور معانقہ نہ کرنا پڑے۔ اتنے سے وقت میں بھی وہ پوری طرح ماسک اور دستانوں سے لیس نظر آئے۔
گزشتہ دوماہ سے سوشل ڈسٹنسنگ کی عادت اِس قدر پختہ ہو چکی ہے ماہِ صیام اور عید کے بعد بھی اگر کوئی گھر پر ملنے کا خواہشمند ہوا تو ــہم یہاں نہیں ہیں کہہ کر ٹال دیا گیا۔ایسے لوگ عید پر خود بھی کسی سے نہیں ملے اور نہ ہی وہ کسی سے ملنے گئے۔ البتہ چند ایسے لوگ جو اِس وبا کی اہمیت سے منکر ہیں اور زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے یہ ضروری سمجھا کہ عید کے بعد اپنی سیاسی رہنماوٰں ، اپنے ایم این اے، ایم پی اے اور سردار کو عید ملیں۔ایسے لوگوں کو وہاں پر بھی مایوسی ہوئی۔ وبائی مرض کے پھیلاوٗ کے بعد تو وہ جیسے قصہ یار بن چکے ہیں۔ وُہ تو گزشتہ دو ماہ سے خودارادی قرنطینہ میں جا چکے ہیں۔عوام، رعایا سے دور رہنے کے لیے اُنہوں نے اپنے گھروں کے صدر دروازوں پر چوکیدار مقرر کر دیے تاکہ لوگوں کو یہ بتایا جا سکے کہ خان اِدھر نہیں ہیں اور وُہ اپنے اصل گھروں لاہور اور اِسلام آباد ہیں۔ اُنہیں اپنے اِن ووٹروں کی فوری ضرورت نہیںہے۔ جب حالات بہتر ہوئے، تو اپنے علاقوں میں جاکر خیریت پوچھیں گے اور اِس دوران جاں بحق ہونے والوں کے لیے ایصالِ ثواب بھی کریں گے۔ ہماری مجبوری ہے کہ ہم اپنی سیاسی پیروی کا ثبوت دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ ملیں یا نہ ملیں ہماری حاضری ہو جائے تاکہ سند رہے کہ ہم اپنی وفاداریوں کا اعادہ کے لیے حاضر ہوئے تھے ۔ چند ذہین لوگوں نے گزشتہ سال پر دی گئی حاضریوں کی تصاویر دوبارہ دیں تاکہ دونوں طرف سے یہی رشتے مضبوط تر رہیں۔
قارئین کرام ! عید تو گزر گئی لیکن اِس سال عید مختلف رہی، گزشتہ سال کی عیدالفطر کی بہت یاد آئی۔ تمام فرزندانِ توحید اپنے عزیز رشتے داروں اپنے بھائیوں اور بچوں کو ساتھ لیے عیدگاہ موجود تھے۔ عید کے بعد تمام لوگوں نے آپس میں معانقہ کیا اور بلا امتیاز واقف و ناواقف سب کو گلے ملے۔اِمام صاحب کو بھی گلے ملے۔ عیدالفطر سے پہلے رمضان کے روزے ، تہجد اور اعتکاف جیسی عبادات مذہبی جوش و جذبے سے منائی گئی۔ بچوں کو نئے نوٹوں کی عیدی بھی دی گئی۔ گھروں میں بھی تین دِن عید کا سماں قائم رہا۔ اِس بار تو گھر والے بھی آپس میں معانقہ کرنے سے اِجتناب کرتے ررہے ۔ نئے نوٹوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے اور نوٹوں پر وائرس ہونے کے شبہ میں سب بڑے چھوٹے دور رہے۔ وقت ایک سا نہیں رہتا یقینا اچھے وقت کا انتظار کریں گے۔ اللہ پاک سے دُعا کریں گے کہ عید الفطر پر رہ جانے والی کمی کوتاہیوں کو عید الضحی پر پورا کر دے۔ اگرچہ بہت مشکل لگتا ہے پھر بھی تمام اہلِ وطن نے گزشتہ دوماہ سے زائد عرصہ جس مشکل میں گزارہ ہے دستِ بد دعا ہے کہ اُن کے گناہوں کو معاف فرمائے اور آئندہ خوشیاں نصیب فرمائے۔ اِس وبائی مرض نے جو نظم و ضبط کا درس دیا ہے اُس پر تمام لو گ قائم و دائم رہیں تاکہ اِس کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ عذاب یہ ہوا کہ ہمارے ملک کی معیشت کو بہت دھچکا لگا ہے۔68سالوں کے بعد ہماری جی ڈی پی منفی زون میں ہوگئی ہے۔ 1952 میںبھی ملکی معیشت کی یہی صورتحال تھی جو آج کرونا وائرس کی وجہ سے ہے۔ملکی معشیت کا جی ڈی پی گروتھ منفی میں جانے کی وجہ سے مقتدر حلقوں میں بھی مبینہ طور پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ خدا ہمارے ملک کو مزید ترقیاں نصیب فرمائے۔
پھر عیدیں آئینگی، خوشیاں ہونگی کیونکہ رسمِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے۔
٭٭٭٭٭٭