کرایہ داری نظام پر حکومت خاموش کیوں ہے؟
" ملکی معیشت کا دارومدار عام ہنر مند چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری طبقے کی بڑی اکثریت پر منحصر ہے۔ اعلیٰ عدلیہ پاک فوج اور ریاست کے ایوانوں سمیت ملک کے تمام اداروں کا بڑا بوجھ اسی کاروباری طبقے کے کاندھوں پر ہے۔ فیکٹریوں کارخانوں اور باہر سے برآمد شدہ ضروریات زندگی کی تمام اشیاء اسی چھوٹے اور درمیانے کاروباری طبقے کے ذریعے عوام تک پہنچ پاتی ہیں۔ ریاست کے ایوانوں اور اداروں کے حکام بالا سبھی جانتے ہیں ک یہ طبقہ ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ریاست میں اس بڑی کاروباری اکثریت کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ ایک عام دکاندار کو کاروبار چلانے کے لئے سب سے بنیادی اور بڑی ضرورت دکان کی ہوا کرتی ہے۔ اپنی جمع پونجی لگا کر ان تھک محنت سے اسے اپنی دکانداری کو کامیاب کرنا ہوتا ہے۔ اپنے اس محدود کاروبار سے ملازمین کی تنخواہ دکان کا کرایہ بجلی کے بل اور دیگر اخراجات نکالنے کے بعد اسے اپنے خاندان کی کفالت کرنا ہوتی ہے۔ لیکن سالوں سال کی محنت کے بعد بھی یہ دکاندار اپنی ذاتی دکان کے لئے دو مرلے کی جگہ بھی خرید نہیں پاتے۔ یوں یہ ساری زندگی کرائے کی دکان پر گزارہ کرتے ہیں۔ دکانداروں کی اس بڑی کمزوری سے دکان مالکان کی من مانی کے مکروہ واقعات عموماً سامنے آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے دکانداروں کی بڑی اکثریت شدید مشکلات میں مبتلا رہتی ہے۔ آخر کون ہے جو اس بات سے واقف نہیں کہ جیسے ہی کوئی دکاندار اپنی محنت سے اپنے کاروبار کو کچھ مستحکم کرتا ہے تو دکان مالک کی نظریں ناپاک ہوجاتی ہیں اور پھر ایڈوانس کی رقم اور کرایہ بڑھانے کے مطالبات کی بلیک میلنگ شروع ہو جاتی ہے۔ ایک مدت کی محنت سے دکانوں کو کامیاب کرنے والے دکاندار کو دکان مالک جب جی چاہے دکان سے محروم کر کے رکھ دیتا ہے۔ اور دکاندار اپنے جمے جمائے کاروبار سے محروم ہو کر اپنے خاندان سمیت سڑک پر آجاتا ہے۔ بنی بنائی جمی جمائی دکان چھوڑتے وقت تمام الماریاں کاؤنٹر اور فرنیچر اکھاڑنے سے ناکارہ ہوجاتا ہے۔ بالخصوص پنجاب کا کوئی شہر کوئی بازار کوئی چوراہا کوئی مارکیٹ ایسی نہیں جہاں دکانداروں کے ساتھ اس قدر بے رحمی اور شرم ناک زیادتی کے گھناؤنے واقعات نہ ہوئے ہوں۔ اس کے علاوہ دکان مالکان کرائے میں ہر سال 10 فیصد اضافے کی تاک میں رہتے ہیں۔ دکان کرائے پر دینے کے لئے دکان مالک اور کرائے دار کے ضروری تحفظ کے لئے حکومتی سطح پر کرائے نامے کا کوئی قانونی اور باضابطہ فارم دستیاب نہیں حکومت نے ملک کے لاکھوں عام ہنر مند اور تجارت پیشہ لوگوں کو دکان مالکان کی من مرضی کے حوالے کر رکھا ہے۔ دکان کرائے پر دیتے وقت 100 یا پچاس روپے کے اسٹام پیپر پر تمام شرائط بمع رقم ایڈوانس اور کرایہ جو طے شدہ سے بھی کہیں زیادہ سب کچھ دکان مالک کی من مرضی کے مطابق تحریر کروا لیا جاتا ہے۔ یعنی ایک طرف سے حکومتی ٹیکسز کاروباری شرائط اور دوسری طرف سے مالکان کی من مانی یعنی کہ سب یکجا ہو کر ریاست کو پالنے والے عام چھوٹے دکانداروں کو اذیت دینے کی دوڑ میں لگے ہیں۔ جیسے ہی کرائے کا اگلا سال شروع ہوتا ہے دکانوں کے کرائے میں 10 فیصد اضافے کا بوجھ دکاندار کے سر پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ہر سال 10 فیصد اضافے کا کلہاڑا دھرتی کی پارلیمنٹ اور سینیٹ کے ایونوں کا پیٹ بھرنے والوں کے سروں پر پڑتا ہے۔ہر سال محنت کش انسانیت کی بد ترین تذلیل کا گھناؤنا کھیل کھیلا جاتا ہے مگر نہ جانے کیوں اب تک حکومت اور محترم عدلیہ کو ملک کے لاکھوں دکانداروں کی بڑھتی ہوئی تکلیف پر کوئی جھرجھری تک نہیں آ رہی؟ ایوانوں میں بیٹھے والوں کی اکثریت تو خود ملکیت کی مغروریت کے ہوس میں مبتلا ہے۔ انھیں دکانوں کے کرائے آتے ہیں زمینوں کے ٹھیکے ملتے ہیں بھلا ان سے ملک کے لاکھوں کروڑوں کرائے داروں کے احساس کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے۔ اب کرونا جیسی وباء کی وجہ سے کرہ ارض سمیت ہمارا ملک ایک تاریخی اور خوف ناک معاشی بحران سے گزر رہا ہے بے روز گاری بھوک اور بد ترین کاروباری حالات سے اچھے اچھے مستحکم لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں . دنیا کا کوئی بھی قانون ان مایوس کْن معاشی حالات میں سالانہ دس فیصد کرائے کی اجازت قطعی نہیں دے سکتا۔ اور نہ ہی ہمارے ملک کے لاکھوں عام تاجر اور ہنر مند پیشہ دکاندار اس اضافے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ موجودہ عالمی اور علاقائی معاشی تباہی اور موسمیاتی تبدیلیوں نے وقت کے تقاضوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ریاستی قوانین انسانی اجتماعیت کی اکثریت کے تحفظ اور مفادات کے لئے لاگو ہوا کرتے ہیں لیکن ملک کی بڑی اکثریت اس غیر انسانی قانون سے اپاہج ہو کر رہ گئی ہے۔ موجودہ بدترین معاشی حالات میں سالانہ 10 فیصد اضافے کا اب کوئی جواز نہیں رہا۔ مگر یہ کیسا قانون ہے کیسا عذاب ہے کہ جو ملک کی ایک بڑی اکثریت جس کی حیثیت ریاست میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے کے لئے سراسر تذلیل اور اذیت کا باعث بن چکا ہے جبکہ اس کا فائدہ ان مخصوص مٹھی بھر لوگوں کو ہو رہا ہے جو بنا ہاتھ پیر ہلائے آمدنی حاصل کرنے کے ذرائع آمدن کے عادی ہو چکے ہیں۔ مارکیٹوں ، بازاروں میں کاروبار ہو یا نہ ہو ، ہر طرف چاہے ۔
(جاری ہے)