دست بستہ درخواست
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے ہمیں قرآن کریم عطا کیا اور اس کو اب تک کی تمام کتب میں سے افضل کتاب بنا دیاہے۔ اس میں دنیا کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کی رہنمائی، اُس کا حل اور گناہ ثواب کی وضاحت نہ کی گئی ہو۔ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ اُنہوں نے قرآنی تعلیمات کو بار بار پڑھا تو ہو گا لیکن ان کا مفہوم اور خدائی پیغام سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ اسلام کو اگر دیکھا جائے تو بعض علماء کرام کا وعظ سنیں تو وہ اتنا خوفناک ہوتا ہے کہ جو گرم پیپ، تانبے، آگ میں بھسم کرنے پر ختم ہوتا ہے۔ جبکہ ایک طرف یہ وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ 70 مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ وہ رحیم و کریم ہے۔ اُس کی بخشش اور انعامات کا ذکر بھی کرو۔ یار مت ڈرائو لوگوں کو اسلام سے۔ جن لوگوں نے قرآن کا مطالعہ کیا وہ ہل کر رہ گئے اور فوری ایمان لاتے ہوئے اسلام قبول کر گئے۔ ویسے تو مثالیں سبق دینے کے لئے ہوتی ہیں حقیقت سے قریب ہوںیادور۔ کوئی نومسلم امریکی مصر یاترا پر آیا تو اُس کے مصری میزبان نے اُس کی دعوت کی اور کھانے میں شراب بھی پیش کی اور پینے پر بھی زور دیا۔ نومسلم امریکی نے کہا کہ میں شراب نہیں پیتا، میں مسلمان ہوں۔مصری نے کہا کہ میں بھی مسلمان ہوں۔ نومسلم امریکی بولاکہ آپ پیدائشی مسلمان ہو اور میںنے اسلام پڑھ کر، مفہوم سمجھ کر، اُس کے آفاقی پیغام کو دیکھ کر اور مبنی برحقیقت علم سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ہے۔ ایک اور مثال ملاحظہ کریں۔اللہ والے لوگ قرآن پر حلف لینے سے بہت ہچکچاتے اور گھبراتے ہیں۔ ایسے ہی کسی اللہ والے کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے بیان سے قبل قرآن کا حلف لیں۔ انہوں نے بہت جان چھڑائی۔ آخر بے بس ہو کر کہا کہ قرآن پاک لایا جائے۔ انہوں نے اللہ کی کتاب کو کان کے قریب کرکے ہلایا اور واپس کرتے ہوئے کہا کہ کوئی اور لایا جائے۔ دوسرا قرآن پاک لایا گیا۔ انہوں نے اس کو بھی کان کے قریب لا کر واپس کر دیا اور تیسرا قرآن پاک لانے کے لئے کہا۔ آپ اُسے بھی کان کے قریب لے گئے اور پھر اُس پر حلف لیا۔ بعد میں لوگوں نے پوچھا کہ حضور یہ کیا چکر ہے۔ تینوں ہی اللہ کے کلام ہیں۔ پھر آپ نے ایسا کیوں کیا؟اُس بزرگ نے فرمایا کہ پہلے والا قرآن پاک جب سے چھپا ہے۔ وہ ایک طاق میں رکھ دیا گیا ہے۔ آج تک کبھی نہیں کھولا گیا۔ دوسرے والا قرآن پاک کبھی قل اور چہلم پر ہی پڑھا جاتا ہے۔ جبکہ آخر والا قرآن پاک روزانہ پڑھا جاتا ہے۔قرآن پاک کی تعریف اور حقیقت کے بارے میں اب تو ہمارے دشمن بھی کہہ رہے ہیں۔ بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر پنڈت شنکر دیال شرما نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎
عمل کی کتاب تھی
دعا کی کتاب بنا دیا
سمجھنے کی کتاب تھی
پڑھنے کی کتاب بنا دیا
زندوں کا دستور تھی
مُردوں کا منشور بنا دیا
جو علم کی کتاب تھی
لاعلموں کے ہاتھ تھما دیا
تسخیر کائنات کا درس دینے آئی تھی
صرف مدرسوں کا نصاب بنا دیا
مُردہ قوموں کو زندہ کرنے آئی تھی
مُردوں کی بخشش پر لگا دیا
اے مسلمانوں یہ تم نے کیا کیا؟؟
دنیا کے سب سے بڑے قانون کی تعلیم کے ادارے لنکن اِنکے ماتھے پر لکھا ہے کہ ’محمدؐ دی لاء گیور‘‘۔ صفائی نصف ایمان ہے کا درس بھی اسلام نے دیا ہے جسے پوری دنیا نے اپنایا ہے لیکن ہم نے اُس پر عمل نہیں کیا۔
دیو بندی، شیعہ، سُنّی، بریلوی میں بٹ گئے
اپنے اپنے مقصدوں سے اسی لئے ہٹ گئے
مسجد جو کہ عبادت گاہ، عدالت، مدرسے، شادی بیاہ اور دیگر سماجی تقریبات کا محور اور مرکز تھی اُس کی بالکل تالا بندی کردی گئی ہے۔ عید سے دو دن پہلے آپ نے خبر پڑھی ہوگئی۔ جرمنی کے دارالحکومت برلن میں چرچ والوں نے مسلمانوں کو عید نماز کے لئے چرچ دے دیا۔ امریکہ میں میں نے خود چرچوں میں نماز جمعہ پڑھی ہے۔ ہماری کم علمی، تعصب اور آپس کی نفرت کا اُس وقت احساس ہوا جب میں چند سال قبل لاہور کے ایک نواحی علاقے میں گیا تو مسجد کو دھویا جا رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ جناب بڑی صفائی ہو رہی ہے۔ تو اُنہوں نے بڑے فخر سے کہا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ دوسرے فرقے کا ذکر کرکے کہا کہ وہ مسجد میں داخل ہوا تھا۔ لہٰذا مسجد پاک کی جا رہی ہے۔ ؎
گونگی ہو گئی آج کچھ زباں کہتے کہتے
ہچکچا گیا خود کو مسلمان کہتے کہتے