فیضانِ علامہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ 4ربیع الثانی 1331ھ بمطابق 1913ء میں ضلع مراد آباد(یو پی ) ہند کے علاقے امروہہ شریف میں صبح چار بجے دنیا میں جلوہ گر ہوئے۔اسم گرامی اورسلسلہ نسب:۔ آپ کا اسم گرامی سید اَحمد سعید ہے اورمشہور نام علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا شجرہ نسب کچھ یوں ہے: ’’سید احمد سعید کاظمی بن سید مختار احمد کاظمی بن سید یوسف علی چشتی بن سید شاہ وصی اللہ نقشبندی مجددی بن سید صبغت اللہ نقشبندی بن سید سیف اللہ شاہ چشتی رحمۃ اللہ علیہم‘‘۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ نسب 37واسطوں سے حضرت سیدنا امام موسیٰ کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور 44 واسطوں سے سردار جوجہاں، مالک کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ غزالیٔ زماں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مبارک خاندان مغل بادشاہ اکبر اعظم کے دور میں دہلی میں آباد ہوا، پھر کچھ عرصہ بعد اترپردیش ضلع مرادآباد کے مضافاتی علاقے امروہہ میں آباد ہو گئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک بار بچپن میں والد محترم سید مختار احمد کاظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اپنا عمامہ شریف اتار کر میرے سر پر رکھ دیا اور اس پر تھپکی کے انداز میں اپنا دست شفقت پھیرتے ہوئے فرمایا: میرا یہ بچہ بہت بڑا عالم بنے گا، بہت بڑا عالم بنے گا۔سایہ پدری اُٹھ گیا:۔ غزالیٔ زماں حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عمر مبارک تقریباً 6سال تھی کہ والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا، آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ اور برادرِ مکرم حضرت علامہ سید محمدخلیل شاہ کاظمی چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے زیرسایہ ہوئی۔اعلیٰ حضرت نے دُعائوں سے نوازا:۔ حضرت علامہ سید محمدخلیل شاہ کاظمی رحمۃ اللہ القوی کے امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت حضرت علامہ مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے اچھے تعلقات تھے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں آنا جانا تھا۔ ایک بار حضرت علامہ سید محمدخلیل شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو غزالیٔ زماں رحمۃ اللہ علیہ (جو ابھی چھوٹے تھے) بھی ساتھ تھے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انہیں اپنی گود میں اٹھا لیا اور دیر تک اپنی دُعائوں اور شفقتوں سے نوازتے رہے۔
1348ھ بمطابق 1929ء میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سولہ سال کی عمر میں سند فراغت حاصل کی۔ آپ کی دستاربندی شیخ المشائخ حضرت سید علی حسین شاہ اشرفی کچھوچھوی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمائی۔ اس موقع پر خلیفہ اعلیٰ حضرت صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمدنعیم الدین مراد آبادی، مولانا نثار احمد کانپوری اور دیگر کئی علمائے کرام و پیران عظام علیہم رحمۃ الرحمن بھی موجود تھے جنہوں نے آپ کو خصوصی دُعائوں سے نوازا۔ بیعت و خلافت:۔ علامہ سید احمد شاہ کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 1347ھ بمطابق 1929ء میں اپنے برادرِ معظم محدثِ امروہہ حضرت علامہ سید محمدخلیل شاہ کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سلسلہ چشتیہ قادریہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے اور اجازت و خلافت حاصل کی۔ آپ کو چشتی سلسلے میں خلافت اپنے برادرِ معظم اور قادری سلسلہ میں خلافت شہزادۂ اعلیٰ حضرت، مفتی اعظم ہند علامہ محمدمصطفی رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے ملی۔ آپ زیادہ تر چشتیہ سلسلہ میں بیعت فرماتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مریدین سعیدی کہلاتے ہیں۔حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دنیا بھر میں غزالیٔ زماں کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ لقب آپ کو حضرت علامہ مولانا سید محمداشرفی جیلانی کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھرے مجمع میں اس وقت دیا جب کم و بیش ڈیڑھ سو جید علمائے کرام کی موجودگی میں حضرت علامہ کاظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی علم و عرفاں کے دریا بہا رہے تھے۔ عوام کے جم غفیر نے محدث اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے فرمان کی تائید فلک شگاف نعروں کے ذریعے سے کی۔ نومبر 1935ء میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جامع مسجد فتح شیر بیرون لوہاری دروازہ میں درسِ قرآن کا آغاز فرمایا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی استقامت کو لاکھوں سلام کہ ایک دن بھی درسِ قرآن کا ناغہ یا تاخیر نہ فرمائی۔آپ نے مسلسل اٹھارہ برس تک اس مسجد میں درس قرآن فرمایا۔صرف بسم اللہ شریف پر چھ ماہ درس فرمایا۔ آپ نے 1935ء سے شاہی مسجد عیدگاہ میں خطابت اور جمعہ و عیدین کی نمازکی امامت کے فرائض سنبھالے اور دمِ آخر تک تقریباً 51سال فی سبیل اللہ یہ فرائض انجام دیتے رہے۔ وصالِ باکمال:۔ غزالیٔ زماں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔ 4 جون بروز بدھ 1986ء بمطابق 25رمضان المبارک 1406ھ کو روزہ افطار فرمایا اور صاحبزادہ مظہر سعید کاظمی دامت برکاتہم العالیہ سے فرمایا: مظہر میاں! میرا وضو تو ہے لیکن ذرا تازہ وضو کرلیں پھر نمازِ مغرب ادا کریں گے۔ صاحبزادے نے آپ کو سہارا دے کر اٹھانا چاہا لیکن آپ کا جسم نازنین پیچھے کی طرف تشریف لے آیا، صاحبزادے نے سنبھالنا چاہا اور دوسرے بھائیوں کو بلایا مگر اس وقت تک آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ 5 جون بروز جمعرات 26 رمضان المبارک مغرب کے وقت شاہی عید گاہ مدینۃ الاولیاء ملتان شریف میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔