کرونا کا خوف اور افسوسناک واقعہ
4 ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے COVID-19 کے پھیلائو سے ہونے والی اموات میں اُس لیول پر کمی واقع نہیں ہو رہی ترقی پذیر ممالک میں جس کی توقع اب تک کی جا رہی تھی۔ پوری دنیاایک ایسی خوفناک اور بے یقینی سی صورت حال سے دوچار ہے جسے لفظوں اور روزمرہ تجربات سے تو شاید بیان کیا جا سکتا ہے مگر اس موذی اور جان لیوا وائرس کے علاج کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنا ابھی ممکن نہیں ہو سکا؟سوشل میڈیا نے اس جان لیوا مرض کے بارے میں PREDICTIONS کے زور پر ایک طوفان برپا کر رکھا ہے۔ ہومیو پیتھک ، ٹوُنے‘ شرطیہ علاج ، ٹوٹکوں ، دم درود ، تعویزوں اور نئی VACCINATION کی دریافت پر طرح طرح کے تبصرے اور تشریحات پیش کی جا رہی ہیں۔ متعدد ڈرگ ٹیسٹ کمپنیاں اپنی ادویات سے 50 فیصدکامیابی کا اعلان بھی کر رہی ہیں مگر بنظرِ غائر اگر دیکھا جائے تو یہ محض ایک مقابلے کی دوڑ ہے جس میں امریکہ ، روس ، جرمنی ، فرانس ، چین اور برطانیہ پوری تیاری سے حصہ لے رہے ہیں؟ انگلستان میں کرونا کی تازہ ترین مگر ہر روز بدلتی صورت حال میں قدرے تبدیلی واقع ہوئی ہے جون 2020 کے پہلے ہفتے حکومتی ہدایات کے پیش نظر نرسری اور پرائمری سکولوں کو سماجی فاصلے کے ضابطے کے تحت کھولا جا رہا ہے تاکہ چھوٹے بچوں اور اساتذہ کے ذہنی تنائو کو آہستہ آہستہ کم کیا جا سکے۔ عوام کو ’’ماسک‘‘ ہینڈ گلوز ’’ہینڈ سینی ٹائزر‘‘ 2 میٹر فاصلے کی پابندی SELF-ISOLATION اور QUARANTINE پر جاری حکومتی احکامات پر ہر شہری کو عمل پیرا ہونا لازم ہے کہ عدم توجہ پر اب بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ جون سے LOCK DOWN میں کی جانے والی متوقع نرمی کی ایک وجہ اموات میں بتدریج ہونے والی کمی بھی بتائی جا رہی ہے۔ جہاں تک اپنے وطن عزیز پاکستان کی ’’صحت یابی‘‘ محکمہ صحت اور شہریوں کو بغیر ملاوٹ ادویات فراہم کرنے کا معاملہ ہے تو انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس شعبے میں قوم کا اعتماد بحال نہیں ہو سکا۔ آزادی کے 77 برس گزرنے کے باوجود عوام بے چاروں کو سرکاری ہسپتالوں اور سرکاری دوا خانوں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے آج بھی دھکے کھانے کے مراحل سے گزارا جا رہا ہے۔ صبح و شام کثرت سے درود پاک پڑھنے اور نماز پنجگانہ ادا کرنے کے باوجود ذخیرہ اندوزی، بے حیائی، دروغ گوئی، رشوت، اقرباء پروری اور بے انصافی کو روزمرہ معمولات کا حصہ بنا رکھا ہے جبکہ دوسری جانب من حیث القوم اپنی نااہلی اور دانستہ منفی فکر و نظر کو اللہ تعالیٰ کی منشاء قرار دے رکھا ہے۔ انگریز دور کے دریائوں اور نہروں پر تعمیر کئے گئے 300کے قریب ریلوے پلوں کی بمطابق ریکارڈ ’’عمریں‘‘ پوری ہوچکی ہیں مگر داد دینا پڑے گی۔ رہی سہی (بیوروکریسی) Bureaucracy کو جو اس اہم ترین معاملے کا ادراک کرنے کے باوجود ’’اللہ کارساز ہے‘‘ کے موٹو پر گامزن ہے۔ ریلوے کی ٹریفک بدستور ان پلوں سے رواں دواں ہے جو کسی بھی وقت کسی بڑے حادثہ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یہی معاملہ عام ٹریفک کا ہے جو نہروں پر تعمیر پلوں پر محدود وزن گزارنے کے خطرے کے باوجود اپنی ’’آنیاں جانیاں‘‘ بلاخوف و خطر جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اپنے قومی دھارے میں مغربی ممالک کی نقل اتارنا ہمارے ہاں ترقی کا راز تصور ہوتا ہے، معاشرتی کمزوریوں کا ادراک کئے بغیر اپنے آپ کو ہم ترقی پسند کہلوانا چاہتے ہیں۔ جس روز سے کرونا نے اپنے پنجے گاڑھے ہیں ،ہماری احتیاطی تدابیر پالیسیوں کا رخ بھی یکسر تبدیلی ہوگیا ہے۔ انگریزی کے دو لفظوں SOPاور P.P.Eکا ذکر یوں تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر 24گھنٹے جاری ہے مگر افسوس کہ ایک عام آدمی کو ان حفاظتی تدابیر کے اس Aorevition کے بارے میں ان تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔ سادہ الفاظ میں جاننا ضروری ہے۔
یہ نقطہ میری سمجھ میں ابھی شائد نہ آتا کہ اگلے روز میری ہمسائی نے عیدالفطر کی مبارک دیتے ہوئے کرونا کے حوالہ سے یہ پوچھ لیا کہ پاکستان میں ’’ایس او پیز‘‘ اور ’’پی پی ای‘‘ الفاظ کو سمجھنے والے افراد کی کتنی تعداد موجود ہے؟ میڈیا کیلئے کیا یہ ممکن نہیں کہ Standard Operations Procedures اور Personal Protitive Eaofreivhکا وہ اردو زبان میں اس طرح ترجمہ کرسکیں کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو احتیاطی تدابیر سمجھنے میں آسانی ہوسکے؟ گوری ہمسائی کا سوال زبان کے حوالہ سے یقینا درست تھا مگر میں نے اسے جب یہ بتایا کہ مروجہ طریقہ کار کے عمل کو جاری رکھنے کیلئے ہمارے ہاں انگریزی الفاظ کو اس طرح اردو میں لکھنے اور بولنے کا زیادہ رجحان ہے تو اسے حیرانی ہوئی۔ میرے اس استدلال سے اس نے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہاکہ انگریزی الفاظ کو آپ اردو میں انگریزی مفہوم سے لکھنے اورپڑھنے میں جب آسانی محسوس کرتے ہیں تو پھر ایک عام آدمی کو انگریزی لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں دشواری کیوں؟ ہمسائی کی اس انگریزی بحث میں اپنے آپ کو میں اس لئے بھی مزید الجھانا نہیں چاہتا تھا کہ کرونا سے یہاں ہونے والی 37ہزار سے زائد اموات اور 24 مئی 2020ء جمعۃ الوداع کو اپنی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی کراچی لینڈنگ کے دوران پیش آنے والے خوفناک حادثے میں جاں بحق ہونے والے 97 مسافروں اور عملے کے اراکین کے غم نے پہلے ہی نڈھال کر رکھا تھا۔ عیدالفطر کی مبارک باد قبول کرنے اور اس کا شکریہ ادا کرنے سے زیادہ اسے میں اور کچھ نہ کہہ پایا کہ اس بار اس سے تفصیلی بات چیت کرنے کیلئے مجھ میں حوصلہ نہ تھا۔