مکرمی! قاتل ڈور کی خبریں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں‘ جب کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو انتظامیہ فوراً ’’اِن ایکشن‘‘ ہوجاتی ہے ‘ اور پتنگ باز بھی دبک کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن دو چار دن گزرنے کے بعد مختلف علاقوں میں پھر پتنگ بازی شروع ہو جاتی ہے۔ نہ جانے ان لوگوں کی بے حسی کب ختم ہوگی؟ پتنگ سازوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ قاتل ڈور کا کاروبار کرکے اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پال رہے ہیں۔ اس سے انکی تربیت پر کیا اثر پڑیگا‘ کیونکہ بچوں کی اچھی تربیت کیلئے رزق حلال ضروری ہے۔ کینال بنک‘ فتح گڑھ‘ تاج باغ‘ لال پل اور نئے پل اور ان علاقوں کے مضافات میں شام کے وقت پتنگ بازی عروج پر ہوتی ہے لیکن ان پتنگ بازوں کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ کارروائی کیلئے حادثہ کا رونما ہونا ضروری ہے؟ خدارا ! پتنگ بازوں اور پتنگ سازوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ اس موت کے کھیل سے نجات مل سکے۔ (سلیم اختر۔ لاہور)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024