3 201ء کے انتخابات سے قبل زرداری صاحب کی حکومت نے عالمی دباؤ کو پس پشت ڈال کر پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا لیکن ن لیگ کی حکومت کے 5سالہ دور میں ایران نے اپنی حدود میں تو گیس پائپ لائن مکمل کرلی لیکن پاکستان نے اس پر کوئی پیشرفت نہ کی اور نہ ہی کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار کیا گیا محض زبانی طور پر تو دعوے کئے جاتے رہے کہ ہم عالمی دباؤ کو بالائے طاق رکھ کر فیصلے کرتے ہیں اور پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں لیکن عملی طور پر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی مثال ان دعوؤں کی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔حالانکہ بھارت نے ایران سے جتنے معاہدے کئے ہیں ہمیشہ ان پر عمل کیا ہے اور کسی بھی عالمی دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتا لیکن تمام پابندیاں صرف پاک ایران تعلقات پر موثر ہوتی ہیں۔
بنیادی جمہوریت’’بلدیاتی انتخابات‘‘ کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں دشمن ثابت ہوئی ہیں اور وہ زبانی طور پر تو جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں لیکن اختیارات و وسائل کی نچلی سطح تک تقسیم کی ہمیشہ مخالف رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے سخت احکامات کے بعد مجبوراً غیرموثر بلدیاتی نظام بناکر مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائے گئے لیکن یہ نظام بنایا ہی بدنیتی کی بنیاد پر تھا تو یہ نظام کس طرح سے عوام کے مسائل انکی دہلیز پر حل کرسکتا تھا؟ بلدیاتی نظام کو موثر ترین بنانے میں اب تک پیپلزپارٹی‘ ن لیگ اور تحریک انصاف کا رویہ یکساں ہی ہے جو اپنے اراکین اسمبلی کے ہاتھوں یرغمال بن کر فیصلے کرتی ہیں اور وسائل و اختیارات اپنے اراکین پارلیمنٹ تک محدود رکھ کر بلدیاتی نظام کا قتل کرتے ہیں۔ اس طرح کرنے سے یہ لوگوں کے کام اس شرط پر کرتے ہیں کہ الیکشن میں ہماری جماعت کو ووٹ دینا اور جو ان کو ووٹ نہیں دیتا انکے علاقے میں کوئی کام نہیں کرایا جاتا۔
ن لیگ کی حکومت میں ماڈل ٹاؤن میں بے گناہوں کا قتل‘ ممتاز قادری کی سزا پر عملدرآمد‘ ختم نبوت ﷺ کے حلف نامے میں تبدیلی سمیت کئی غلط اقدامات بھی کئے گئے جس سے انکی مقبولیت میں زبردست کمی آئی اور رہی سہی کسر پانامہ لیکس اور حکمران جماعت کے وزراء کی شعلہ بیانی نے پوری کردی اور پھر وہی ہوا کہ ان کی حکومت کے آخری 2سال کچھ اچھے نہیں گزرے لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت سے ن لیگ کی حکومت بہت بہتر تھی۔
ملک کے آبی وسائل کے استفادے اور چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے ڈکٹیٹرشپ کا ایوب خان دور بہترین تھا اور ڈیموکریسی میں ملک میں ڈیموں کی تعمیر نہیں کی گئی اور آبی وسائل سے استفادے کے بجائے کمیشن کی خاطر تھرمل پاور کو اہمیت دی گئی اور اپنے من پسند ایسے افراد جن کا ٹیکسٹائل شعبے سے تعلق تھا ان کو تھرمل پاورز کی تنصیب کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ انہیں حکومت سے سرکاری ریٹ پر فرنس آئل کا کرایہ لیکر اپنے فرنٹ مین کے ذریعے نجی پیٹرولیم کمپنیوں سے فرنس آئل خرید کر آئل ٹینکرز کو فی ٹن 1200-1500 روپے کم کرایہ دیکر ماہانہ کروڑوں اربوں روپے کا فراڈ کرکے تھرمل پاور کمپنیوں نے لوٹ کا بازار گرم کئے رکھا اور 2008ء کے انتخابات سے اب تک کے ایک دہائی سے زیادہ کے عرصے میں ان تھرمل کمپنیوں کا درست آڈٹ کرکے صرف آئل ٹینکرز کو کم کرایوں میں دی جانے والی رقم کا حساب کیا جائے تو وہ کھربوں روپے بنتی ہے جو حکومت پاکستان ادا کرچکی ہے لیکن تھرمل پاور کمپنیاں بجائے آئل ٹینکرز کو مکمل کرایہ دینے کے ذاتی جیبوں میں ڈال چکی ہیں۔
2016ء میںپانامہ لیکس کے بعد میاں نوازشریف اور ان کی فیملی کا ٹرائل شروع ہوا اور انہیں اقامہ پر تاحیات نااہل کردیا گیا جس کے بعد شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمٰی سنبھالی اور پھر 2018ء کے الیکشن کا اعلان ہوا جس میں ہر جماعت نے اپنے منشور کا اعلان کرکے انتخابی مہم چلائی۔تحریک انصاف نے انتخابی مہم میں نظام کی تبدیلی سمیت ’’نئے پاکستان‘‘ کے قیام کیلئے بلند بانگ دعوے کئے اور عوام کو حد سے زیادہ سبز باغ دکھائے گئے۔ پڑھے لکھے افراد بھی انکے دعوؤں پر اعتبار کرکے تحریک انصاف کی انتخابات میں فتح کیلئے برسرپیکار ہوگئے۔ الیکشن 2018ء کے نتائج ایسے آئے کہ کوئی بھی جماعت تنہا حکومت بنانے کی سکت نہیں رکھتی تھی تو تحریک انصاف نے مخلوط حکومت قائم کی۔
موجودہ دور حکومت میں ایرانی پیٹرولیم مصنوعات ملک بھر میں کھلے عام فروخت ہورہی ہیں جس سے قومی خزانے کو یومیہ اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ ایران سے وہائٹ اسپرٹ کیمیکل کے نام پر امپورٹ کرکے براہ راست پیٹرول پمپوں کے ٹینک میں خالی ہوتا ہے جس کی قیمت ڈیزل پیٹرول سے بہت کم ہے۔ اس طرح سے پورے ملک کی گاڑیوں کو غیر معیاری ڈیزل پیٹرول مل رہا ہے۔ ڈیزل اور لائٹ ڈیزل جبکہ پیٹرول اور کیروسین کی قیمتوں میں فرق کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات میں ملاوٹ ہورہی ہے اور عام آدمی کو لائٹ ڈیزل یا کیروسین سرکاری ریٹ پر دستیاب نہیں۔جنرل مشرف کے دور میں لائٹ ڈیزل اور ڈیزل جبکہ پیٹرول اور کیروسین کی قیمتیں برابر تھیں جس سے ملاوٹ نہیں تھی۔ اب موجودہ حکومت کو خطوط لکھنے کے باوجود کوئی اچھا فیصلہ نہیں کیا جارہا۔ اگر لائٹ ڈیزل اور ڈیزل جبکہ پیٹرول اور کیروسین کی قیمتیں برابر کردی جائیں تو ملاوٹ کا خاتمہ ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ یہ چیزیں عوام کو سرکاری ریٹ پر دستیاب بھی ہوسکیں گی۔
جنرل مشرف نے ایران سے ہی 3ماہ کے کریڈٹ پر پیٹرولیم مصنوعات سرکاری طور پر امپورٹ کرکے اپنا دور حکومت بہترین طریقے سے چلایا اور انکے دور میں اسمگلنگ نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایران کی جانب سے اب بھی پاکستان کو 3ماہ کے کریڈٹ پر پیٹرولیم مصنوعات دینے کی پیشکش موجود ہے لیکن ہم عملی طور پر امریکی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں اسی لئے ایران سے سرکاری طور پر امپورٹ کے بجائے اسمگلنگ کو فروغ دیا جارہا ہے جس سے روزانہ کی بنیاد پر اربوں روپے ٹیکس قومی خزانے میں جمع نہیں ہورہا تو دوسری طرف پاکستان کی ریفائنریز اور آئل مارکیٹنگ کمپنیاں بھاری نقصانات کا شکار ہیں جبکہ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات ملک بھر میں کھلے عام فروخت ہورہی ہیں۔ (جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024