20ہفتہ ‘7 ؍ شوال ‘ 1441 ھ‘ 30؍مئی 2020ء
کلو آٹے کا تھیلا 70 روپے مہنگا ، نئی قیمت 875 روپے ہو گئی
بدقسمتی سے محکمہ خوراک اور فلور ملز مالکان میں ’’اِٹ کھڑکا‘‘ ہمہ وقت رہتا ہے اور دونوں اپنے اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے کو ’’بلیک میل‘‘ کرنے اور ’’نیچا دکھانے‘‘ کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ محکمہ خوراک جب بھی کوئی قدم اُٹھاتا ہے یا ایف بی آر سمیت دیگر کوئی سرکاری ادارہ کارروائی کرتا ہے تو فلور ملز مالکان فوری ردّعمل دیتے ہوئے ہڑتال کا اعلان کردیتے ہیں یا آٹے کے ریٹ بڑھا دیتے ہیں دونوں صورتوں میں ’’نزلہ برعضو ضعیف‘‘ کے مصداق عوام پر ہی پڑتا ہے کیونکہ نہ محکمہ خوراک کی ’’روٹیاں چکن ‘‘ بند ہوتی ہیں نہ کسی دوسرے ادارے یا محکمے کا ’’چولہا بجھتا‘‘ ہے۔ کا شکار اور چھوٹے زمیندار کا ہی استٰحصال ہوتا ہے کہ جس سے گندم ’’چھیننے‘‘ کی ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے۔ ابھی گندم کا سیزن ’’آج‘‘ ہی ختم ہوا ہے اور آج سے ہی آٹا مہنگا ہونے کا شور بپا ہے۔ مصنوعی قلت اور چور بازاری بھی پورے عروج پر ہے۔ جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے بنی گالا میں گاڑی رکوا کر ایک دکاندار سے آٹے کا ریٹ پوچھا تو اس نے 1000 روپے بتایا جس پر وزیر اعظم نے آٹے کی قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کی۔ اب اگر سارے کام وزیراعظم نے ہی کرنے ہیں تو باقی فوج ’’ظفر موج‘‘ کس کام کے لیے ہے لہٰذا سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے جس طرح حکومت نے چوری چوری چپکے چپکے اپنا ’’الو سیدھا‘‘ کرنے کی ٹھان لی ہے کہ پوری دنیا میں کرونا کرونا ہو رہی ہے ۔ انسانیت کو کہیں موت اور کہیں بھوک سے بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مارے جا رہے ہیں ، وزیر اعظم عمران خان بھی پاکستانی عوام کو بھوک سے مرنے سے بچانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں ، کئی طرح سے عوام کو ریلیف بھی دے رہے ہیں جن میں دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ بجلی بلوں میں بھی ریلیف دیا گیا لیکن لگتا ہے وزیر اعظم کی عوامی بھلائی کے لیے کی گئی ساری کوششوں پر پانی پھیرنے کا تہیہ کر لیا گیا ہے۔ ’’نیپرا‘‘ 3 جون کو بجلی مہنگی کرنے کی درخواستوں کی سماعت کرے گی کیونکہ بجلی 2 روپے یونٹ مہنگی کئے جانے کا امکان ہے جس سے عوام پر 62 ارب روپے سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔ جس کے مقابلے میں عوام کو دیا جانیوالا ریلیف تو ’’اُونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ ہی ہو گا اور ’’اس ہاتھ سے دینے اور اُس ہاتھ سے لینے ‘‘ کی پالیسی بھی کامیابی سے جاری رہے گی۔ وزیر اعظم عمران خان عوام کو ریلیف دینے کے لیے جتنے مرضی ’’جتن‘‘ کرلیں مگر اداروں نے تو اپنا کام کرنا ہی ہے ناں ! لہٰذا وزیراعظم عمران خان کو ایسے ’’محرکات‘‘ و ’’اسباب‘‘ تلاش کر کے ان کا فوری قلع قمع کرنا چاہئے۔
٭٭٭٭٭
بھارت میں والدین نے جڑواں بیٹوں کے نام کورنٹائن اور سینیٹائزر رکھ دیئے
کسی غیر معمولی واقعہ، شخصیت یا تہوار اور دن کی مناسبت نام سے رکھنے کی روایت تقریباً ہر خطے ، علاقے اور تہذیب میں موجود ہے۔ ناموں کا شخصیات پر بڑا اثر پڑتا ہے۔ کئی نام عقیدہ و عقیدت کے آئینہ دار ہوتے ہیں ، کہیں سے احترام جھلکتا ہے تو کہیں سے شخصیت کے بارے میں اچھا یا بُرا تاثر اُبھرتا ہے۔ بہرحال بھارت کا تو ’’باوا آدم ہی نرالا‘‘ ہے یہاں تو دیوتائوں کے نام ایسے عجیب و غریب ہیں کہ ’’سنتا جا شرماتا جاتا‘‘ والا معاملہ ہوتا ہے۔ اب بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر میرٹھ میں والدین نے اپنے جڑواں بیٹوں کے نام کورنٹائن اور سینیٹائزر رکھ دئیے ہیں۔ ان کی اس ’’حرکت‘‘ سے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کا تعلق یقیناً ہندومت سے ہی ہو گا کیونکہ دونوں بیٹوں کے ناموں کے ساتھ کوئی ’’سنگھ‘ ونگ‘‘ کا ’’لاحقہ‘‘ نہیں لگایا گیا۔ ایسی صورتحال میں ان بچوں کا مستقبل تو ہمیشہ ’’بدشگونیوں‘‘ کی زدمیں رہے گا کیونکہ 15 ، 20 سال بعد ان بچوں کے بڑا ہونے پر ان کے ’’سنگی‘ ساتھی‘‘ جب ان کو ’’کورنٹائن‘‘ اور ’’سینیٹائزر‘‘ کے نام سے پکاریں گے تو یقیناً 25,20 سال پیچھے ’’کرونا‘‘ وائرس کی طرف دھیان جائے گا تو اسی خوف و ہراس کے باعث لوگ ان کو ’’کرونا‘‘ سیزن کی پیدائش قرار دیں گے لہٰذا والدین کو نام سوچ سمجھ کر رکھنے چاہئیں۔
٭٭٭٭٭
حکومت کی حمایت نہ کرنے پر مہاتیر محمد کو پارٹی چھوڑنا پڑ گئی
دنیا بھر میں مقبول قیادتوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے ’’کھڈے لائن‘‘ لگانے کی ریت بڑی پرانی ہے۔ اس حوالے سے قیادتوں کو بھی محتاط رہنا چاہئے اور جذبا ت کے ریلوں میں بہہ جانے کی بجائے پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے۔ تاکہ مخالف قوتوں اور عوامی مفادات کے دشمن عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع ہی نہ ملے جیسے ملائیشیا میں ہوا ، ہردلعزیز عوامی لیڈر مہاتیر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ گئے پھر کیا ہوا ’’بر ساتو‘‘ نامی جس سیاسی پارٹی کے وہ چیئرمین تھے اس سے بھی نکال دیا گیا اور ان کے بیٹے کی رکنیت بھی معطل کر دی گئی۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ فوری طور ’’اپوزیشن‘‘ ان کو اپنا قائد مان لیتی۔ لیکن ’’سارے جھگڑے ہی زندگی کے لیے ہیں ، کون مرتا ہے کسی کے لیے‘‘ کے مصداق اپوزیشن نے تو ان کا حال تک نہ پوچھا۔ ہماری ملکی سیاست میں بھی ایسے ہی ’’جذباتی کھیل‘‘ کھیلے جاتے رہتے ہیں۔ جیسے زمانہ طالب علمی سے مقبول عام لیڈر کی ’’سند‘‘ رکھنے والے معروف سیاستدان (ن) لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں چلے گئے۔ ’’جسم و جاں ‘‘ تحریک انصاف جبکہ ’’دل‘‘ (ن) لیگ میں رہا۔ پھر کیا ہوا۔
خدا ہی ملا نہ وصال صنم
اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
’’نصف النہار‘‘ میں آنکھیں کھلتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ واقعی سچ تو یہ ہے کہ…؎
فرد قائم ربط ملت سے ہے‘ تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں