معزز قارئین! عید اُلفطر تو گزر گئی۔ بہرحال جب کسی ،رشتہ دار / دوست کے ساتھ کبھی کبھار یا مدت بعد ملاقات ہو تو اُسے ’’عیدکا چاند‘‘ کہتے ہیں اور جب ’’عید کے چاند سے مِلّن ‘‘ ہو تو کیا ہی بات ہے؟ جب کوئی ’’عید کا چاند‘‘ ملتا ہے تو، ہم اپنے قریب بیٹھے احباب سے کہتے ہیں کہ ’’ سبحان اللہ ! آج تو ہماری عید ہوگئی ہے‘‘۔ آج مَیں ’’عید کے چاند‘‘ اپنے تین دوستوں کا تذکرہ کروں گا، جن سے میری کئی بار ٹیلی فون پر گفتگو ہُوئی۔
مَیں نے جب بھی گریجوایٹ صحافی کی حیثیت سے سرگودھا کے کسی ’’ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ‘‘ (ڈپٹی کمشنر ) سے اپنا ہفت روزہ اخبار شائع کرنے کی اجازت طلب کی تو، مجھے یہی جواب ملا کہ ’’ اگر تمہیں یہ اجازت دِی گئی تو ، تُم پاکستان کی مسلح افواج میں منافرت پیدا کردو گے ‘‘۔ پھر مَیں 1969ء کے اواخر میں لاہور شفٹ ہوگیا۔ 7 جولائی 1970ء کو جنابِ محمد حنیف رامے کی ادارت میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ کا سرکاری ترجمان روزنامہ ’’مساوات‘‘ جاری ہُوا تو مَیں وہاں سینئر سب ایڈیٹر تھا۔ وہاں میری ’’محکمہ تعلقات عامہ پنجاب ‘‘ کے بہت ہی متحرک آفیسر اعظم خلیل سے دوستی ہوگئی ،جنہوں نے مجھے اکتوبر 1970ء میں ہفت روزہ ’ ’ پنجاب ‘‘ کا "Declaration" (اعلامیہ) جاری کرا دِیا۔
پھر یہ ہُوا کہ ’’ ایک فوجی صدر جنرل ضیاء اُلحق نے مجھے 1981ء میں 11 ملکوں کے دورے پر بھجوایا اور دوسرے صدر جنرل پرویز مشرف مجھے اپنی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے جولائی 2001ء میں ’’ آگرہ سربراہی کانفرنس‘‘ میں اور نومبر 2011ء میں اپنے دورۂ امریکہ میں اپنے ساتھ لے گئے۔ وہاں انفارمیشن گروپ کے سینئر رُکن برادرِ عزیز منصور سہیل پاکستانی قونصلیٹ میں قونصلر جنرل تھے، اُن سے بھی میری پہلے ہی دوستی تھی ۔ منصور سہیل صاحب کے والد محترم متحدہ پنجاب کے نامور سکالر جناب ’’ایف ڈی سیفی ؔاور اعظم خلیل کے والد صاحب نامور ادیب، شاعر و دانشور ،جناب خلیل اُلرحمن اور اُن کے بزرگوں / رشتہ داروںنے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کِیا تھا ۔ ادیبہ اور شاعرہ منصور سہیل صاحب کی بڑی بہن محترمہ بلقیس محمود کئی کتابوں کی مصنفہ تھیں ، جن میں سے ’’اللہ پاکستان لے چل ‘‘ مقبول عام تھی۔
نیویارک میں برادرِ عزیز منصور سہیل کا کافی اثر و رسوخ تھا ۔ اُنہوں نے مجھے کئی امریکی اور جنوبی ایشیائی صحافیوں اور پاکستان کے بااثر اصحاب سے بھی ملوایا۔ 1992ء سے ’’نیویارک باسی ‘‘ میرے فرزندِ اوّل ذوالفقار علی چوہان کے گھر میں منصور سہیل صاحب کی کئی مجلسیں گرم رہیں اور جب مَیں 2006ء میں نیو یارک گیاتو، وہاں خواجہ شفقت جلیل قونصلر جنرل تھے۔ خواجہ شفقت جلیل بھی میرے 1971ء سے دوست ہیں ۔ اُن کے والد صاحب بھیرہ ضلع سرگودھا کے ’’خطہ ٔ مردم خیز ‘‘ خواجہ عبدالجلیل بھی تحریک پاکستان میں سرگرم عمل رہے وہ "U.P" کے شہر کان پور میں کاروبار کرتے رہے ۔ 1947ء میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ڈھاکہ چلے گئے اور وہاں بھی کامیاب رہے ۔ 1971ء میں بنگلہ دیش قائم ہُوا تو خواجہ عبدالجیل نے کراچی میں اپنا کاروبار شروع کردِیا۔
برادرانِ عزیز منصور سہیل 2011ء میں اور اور خواجہ شفقت جلیل جون 2019ء میں وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے "Retired" ہو گئے لیکن میرے یہ دونوں ’’ عید کے چاند‘‘ ۔ "Tired" کبھی نہیں ہُوئے۔ ہر دَور میں "Active" رہے !۔ اِس لئے بھی میرا اُن سے روحانی رشتہ ہے۔ پہلی بار مَیں نیویارک گیا تو مَیں نے نیویارک اوربندر گاہ کے درمیان ’’ جزیرہ ٔ آزادی ‘‘ (Liberty Island) میں نصب ’’مجسمۂ آزادی ‘‘ (Statue of Liberty) دیکھا ۔ یہ مجسمہ 28 اکتوبر 1886ء میں اہلِ فرانس نے امریکیوں کو تحفے میں دِیا تھا۔ مجسمۂ آزادیؔ ۔ فرانسیسی مجسمہ ساز "Mr.Frederic Auguste Bartholdi" نے رومن دیوی "Libertas" کے نمونے پر بنایا تھا۔ ’’مجسمۂ آزادی ‘‘ رومن لباس پہنے ایک مشعل بردار خاتون‘ جِس کے ہاتھ میں قانون کی تختی بھی ہے اور غلامی کی ٹوٹی ہُوئی زنجیریں اُس کے پیروں میں پڑی ہیں۔
معزز قارئین! مَیں نے جب ’’ مجسمۂ آزادی‘‘ دیکھا تو مجھے قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ ’’ مادرِ ملّتؒ ‘‘ یاد آئیں ۔ جنہوں نے (دھاندلی کے باعث ) صدارتی انتخاب تو نہیں جیتا تھا لیکن صدر ایوب خان کی آمریت کا طلسم پاش پاش کردِیا تھا۔ مجھے بار بار یہ بیان کرنے میں خوشی ہوتی ہے کہ ’’ جب دسمبر 1964ء میں صدارتی انتخاب سے پہلے ضلع سرگودھا میں ’’ مادرِ ملّتؒ ‘‘ کی انتخابی مہم کے انچارج تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی مُرید احمد مجھے اور میرے صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقت امرتسری کو ’’ مادرِ ملّتؒ ‘‘ سے ملوانے کے لئے لاہور لے گئے تھے تو، ’’ مادرِ ملّت ؒ ‘‘ سے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور پاکپتن شریف کے میاں محمد اکرم کی بھی ملاقات ہُوئی تھی ، پھر دونوں اصحاب سے دوستی ہوگئی اور اب مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کے فرزند (چیئرمین پیمرا) پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ اور میاں محمد اکرم کے فرزند اردو، پنجابی کے نامور شاعر اور ’’ نوائے وقت ‘‘ کے سینئر ادارتی کارکن سعید آسی سے بھی میری دوستی ہے ۔
معزز قارئین! اِس پر مجھے ’’ ہندی رامائن ‘‘ کے مؤلف نامور شاعر ’’گوسوامی ‘‘تُلسی داس ؔجی کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ …
’’ تلسی بانہہ سپوُت کی، بھُولے سے ، چھو جائے!
آپ نِبھاوے ، عمر بھر ، بیٹے سے ، کہہ جائے! ‘‘
…O…
یعنی۔ ’’ اے تُلسی اگر بُھول چوک سے بھی کسی با عزّت شخص کا بازُو کسی دوسرے شخص کے بازُو سے چھو جائے تو، وہ عُمر بھر (دوستی) نباہتا ہے اور اپنے بیٹے سے بھی کہہ جاتا ہے کہ ’’ تُم بھی دوستی نباہنا ‘‘ ۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024