آج اس خطے میں بھارت ہی امن کے بدترین دشمن کا کردار ادا کر رہا ہے
یواین سیکرٹری جنرل کا عالمی امن کیلئے پاکستان کے کردار کا اعتراف اور طاقت کے توازن کی ضامن ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ پاکستان نے 28؍ مئی 1998ء کو ایٹمی تجربات کرکے کم از کم قابل اعتماد نیوکلیئر ڈیٹرنٹ قائم کیا اور اسکے ذریعے کامیابی کے ساتھ خطے میں طاقت کا توازن بحال کیا۔ یہ سب سائنس دانوں اور انجینئرز کی انتھک کوششوں سے ممکن ہوا۔ گزشتہ روز یوم تکبیر کے موقع پر اپنے ٹویٹر پیغام میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیوکلیئر ڈیٹرنس کے حصول کو ممکن بنانے والے تمام افراد بالخصوص سائنس دانوں کو مسلح افواج سلام پیش کرتی ہیں۔ انہوں نے اپنے ٹویٹر پیغام کے آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ دوسری جانب وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے یوم تکبیر کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیاء کی موجودہ سکیورٹی کی صورتحال کا تقاضا ہے کہ پاکستان خطرات کے حوالے سے چوکنا رہے اور یہ خطرات ایک ہمسائے کی طرف سے خطے میں غلبہ حاصل کرنے کی خواہش کے باعث پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور ایٹمی طاقت کے طور پر ہمارا رویہ ذمہ دارانہ ہے جبکہ بھارت کے گزشتہ سال 5؍ اگست کے اقدام نے جنوبی ایشیاء کی صورتحال مزید غیریقینی بنادی ہے۔
پاکستان کی امن پسند ملک ہونے کی حیثیت تو مسلمہ ہے جس کا اقوام متحدہ سمیت نمائندہ عالمی اور علاقائی ادارے اور پوری اقوام عالم یواین امن مشن میں پاک فوج کے کردار کے تناظر میں اعلانیہ اعتراف کرچکی ہیں۔ گزشتہ روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئترس نے 29؍ مئی کے امن کے قیام کے عالمی دن کے موقع پر اپنے ٹویٹر پیغام میں پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیا کہ خواتین کو امن سلامتی اپریشنز میں بھیجنے والا پاکستان واحد ملک ہے اور امن مشنز میں ٹاپ کنٹری بیوٹر ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ امن مشن میں شامل پاکستانی خواتین اور مرد اہلکاروں سے انکی ملاقات متاثر کن تھی۔ انہوں نے اپنے ایک سابقہ ٹویٹر پیغام میں بھی اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ دنیا بھر میں پاکستان یواین امن مشن کا بہت ہی مستقل اور قابل اعتماد رکن ملک ہے۔ اقوام متحدہ کے امن مشن کا قیام 29؍ مئی 1948ء کو عمل میں آیا تھا اور پاکستان جس نے 30؍ ستمبر 1947ء کو اقوام متحدہ میں شمولیت اختیار کی تھی‘ اقوام متحدہ کے امن مشن کے ماتحت خواتین کو امن سلامتی اپریشنز میں بھجوانے والا واحد ملک بن گیا۔ پاک فوج کی اقوام متحدہ کے ساتھ امن کے حوالے سے خدمات سرانجام دینے کی ایک نمایاں اور طویل تاریخ ہے جو اقوام متحدہ کے میثاق کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے دنیا کی اقوام کے مابین امن اور خوشحالی کے فروغ میں بھرپور تعاون کرنے کے عزم کی پابندی کرتا ہے۔ پاکستان کے امن مشن کے اپریشن کیلئے پاکستان کی جانب سے معاونت کا آغاز 1960ء میں ہوا تھا جب پاکستان نے کانگو میں اقوام متحدہ کے اپریشنز میں اپنا پہلا دستہ تعینات کیا۔ اس ابتدائی کام کو آگے بڑھاتے ہوئے پچھلے 60 سالوں میں پاکستان یواین امن مشن کے مینڈیٹ کو پوری دنیا میں نافذ کرنے میں معاون رہا ہے اور دنیا بھر کے تقریباً 28 ممالک میں دو لاکھ سے زیادہ فوج کے ہمراہ پاکستان نے 46 مشترکہ مشنز میں حصہ لیا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیرانتظام ہنگامہ خیز خطوں میں انسانیت کی مدد کرنے اور امن بحال رکھنے سمیت دنیا بھر کے آج کے دن کو بہتر بنانے کیلئے پاکستان کے جوانوں نے بے بہا قربانیاں دیں اور ان مشنز میں 157 پاکستانی سلامتی جوانوں نے اپنے 24 افسران سمیت جانوں کے نذرانے پیش کئے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اسی تناظر میں امن مشنز کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں باور کرایا کہ پاکستان اپنی بہادر امن فورسز کی قربانیوں کے جذبے کو فراموش نہیں کرسکتا۔ ہمارے امن کے پیغامبر دنیا میں انسانیت کی خدمت میں ہر مشکل جگہ پر مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی باور کرایا کہ یواین چارٹر کے تحت عالمی امن کیلئے پاکستان کا عزم غیرمتزلزل ہے۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم کی قیادت میں پاکستان کا قیام بھی ایک قطعی پرامن تحریک کے نتیجہ میں عمل میں آیا تھا اور اسکے قیام کا پس منظر ہندو متعصبانہ سوچ اور رویے تھے جن کی بنیاد پر مسلمانوں کا انکے ساتھ گزارا ناممکن ہو گیا تھا۔ ہندو بنیا لیڈر شپ نے قیام پاکستان کے بعد بھی مسلمانوں کیخلاف اپنی متعصبانہ سوچ تبدیل نہ کی اور وہ پاکستان کی سلامتی کے بھی شروع دن سے ہی درپے ہوگئے جس کیلئے بھارت نے کشمیر پر اپنا تسلط جمایا اور پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں کے جال بچھانا شروع کر دیئے۔ اگر بھارت خدا واسطے کا بیر رکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دشمنی نہ پالتا تو اس خطہ میں کشیدگی کی کبھی نوبت ہی نہ آتی اور یواین چارٹر کے متعینہ پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت ہمسایہ ممالک ہونے کے ناطے پاکستان اور بھارت باہمی تعاون کی مثالی فضا استوار کرکے علاقائی امن و خوشحالی کی بنیاد مستحکم کرچکے ہوتے مگر بھارت نے پاکستان کو ایک لمحہ بھی سکون سے نہیں رہنے دیا اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر اسکے ساتھ چھیڑچھاڑ جاری رکھی‘ اس پر تین جنگیں مسلط کیں‘ اسے سانحۂ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا اور پھر ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرکے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا۔
پاکستان نے ان بھارتی جارحانہ عزائم کے مقابل اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے خود کو ایٹمی طاقت بنایا تو پاکستان کو بھارتی جنونیت اور اسکے توسیع پسندانہ عزائم نے ہی اس جانب دھکیلا تھا۔ یہ امر واقع ہے کہ پاکستان ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل نہ کرتا تو بھارت اسے کب کا ہڑپ کرچکا ہوتا اور خطے کے دیگر ممالک پر بھی اسی طرح چڑھ دوڑا ہوتا۔ اسکے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے فی الحقیقت پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی نے ہی بند باندھا ہے۔ اس طرح پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی خطے میں بھارت کا بگاڑا گیا طاقت کا توازن بحال کرنے میں ممدومعاون ہوئی ہے جبکہ ہماری اسی ایٹمی ٹیکنالوجی نے بھارت کو اب تک ننگی جارحیت سے روکا ہوا ہے۔ ہمارا ایٹمی طاقت ہونا ہی ہمارے دفاع کی ضمانت اور علاقائی امن کیلئے معاون ہے۔ بے شک پاکستان علاقائی اور عالمی امن کا داعی ہی نہیں‘ اس کیلئے مؤثر کردار بھی ادا کررہا ہے تاہم وہ اپنے دفاع کے تقاضوں سے بھی ہرگز غافل نہیں جس کیلئے ہماری مشاق اور جری و بہادر افواج ہمہ وقت مستعد اور چوکنا ہیں۔ آج بھارت جس طرح اپنی جنونیت میں جنگ کا ماحول گرما رہا ہے اسکے تناظر میں ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے جو یقیناً شوکیس میں سجانے کیلئے حاصل نہیں کی گئی۔ بھارت کی مودی سرکار نے اپنے انتہاء پسندانہ ایجنڈے کی بنیاد پر پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کو کسی بھی حوالے سے چیلنج کیا تو اسے ہماری جانب سے 27 فروری سے بھی زیادہ ٹھوس اور مسکت جواب ملے گا۔ اسکے اس خطے اور پورے کرۂ ارض پر کیا اثرات مرتب ہونگے‘ یہ عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں سے غور وفکر کا متقاضی ہے۔ انہیں بہرصورت بھارت کے جنونی ہاتھ روکنا ہونگے جو اس وقت امن کے بدترین دشمن کا کردار ادا کررہا ہے۔