رمضان تیزی سے گزرتا جا رہا ہے مگر ثواب کمانے والا عشرہ تو اب آیا ہے۔
بہر کیف اس کی ضد پر اسے ایک مقامی نجی سکول میں داخل کروا دیا گیا۔دونوں ٹانگوں کے نیچے ٹرک کے ٹائر کی ٹیوب کاٹ کر باندھ دی گئی،صبح اس کے والد سائیکل پر سکول چھوڑ جاتے۔لیکن واپسی پر وہ رینگتا ہوا گھر آجاتا ۔نجی سکول کے پرنسپل نے اسے ہر ممکن سہولت دی۔نویں کلاس میں اسے گورنمنٹ ہائی سکول شجاع آباد میں داخل کروادیا گیا وہاں اساتذہ نے اسے بلامعاوضہ اضافی وقت میں بھی پڑھایا ۔میٹرک کا امتحان اس نے اعلیٰ نمبرں سے پاس کیا توسکول انتظامیہ نے اس کا میابی پرشہر بھر میں بینرز لگوائے۔محمد جواد بھٹی کے دوست ایف ایس سی کی تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان میں داخلہ لینا چاہتے تھے ۔محمد جواد بھٹی کے گھر والے معذوری کی بنا پر اسے ملتان بھیجنے کے لیے تیار نہ تھے مگر دوستوں نے اس کی ہر ممکن مدد دینے کا وعدہ کیااور اسے اپنے ساتھ ملتان لے آئے۔معذوری کی بنا پر اسے بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔مگر دوستوں اور اساتذہ نے اس کی مدد کی۔ وہ ایف ایس سی بھی اعلیٰ نمبروں سے پاس کرنے میں کامیاب ہوگیا، اس کے بعد اس نے ملتان کی ایک نجی اکیڈمی میں میڈیکل کالج میںانٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لیے داخلہ لے لیا، اکیڈمی کی انتظامیہ نے اس کے گھریلوحالات اور معذوری کو دیکھ کر اس کی فیس معاف کردی۔ انٹری ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد جب وہ اسپیشل اسٹوڈنٹ (معذور) کے کوٹے پر داخلہ کے لیے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں بورڈ کے سامنے پیش ہوا تو بورڈ نے اسے یہ کہہ کر داخلہ دینے سے انکارکردیا کہ تم خود رینگتے ہو،مریض کا علاج کیسے کرو گے۔بورڈ میں موجود آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر اویس قرنی نے اسے کہا اگر تم چھ سات آپریشن کروانے کے لیے تیار ہو جائو تو تمہاری ٹانگیں کم از کم سیدھی ہوسکتی ہیں اور تم رینگنے کی بجائے بیساکھیوں پر چلنے کے قابل ہو جائو گے۔ محمد جواد بھٹی کے لیے لاہور میں کئی ماہ علاج کروانا ممکن نہیں تھا، وہ نشتر میڈیکل کالج ملتان میں ڈاکٹر کامران سالک سے ملا انہوں نے خصوصی اہتمام کیا اسے آٹھ ماہ ہسپتال رکھا اور اس کی ٹانگوں کے چھ آپریشن کیے ان تکلیف دہ حالات میں بھی وہ ثابت قدم رہا۔میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے اسے دوبارہ انٹری ٹیسٹ کا امتحان دینا پڑا جو اس نے آخری آپریشن کے دو ہفتوں بعد دیا۔وہ ایک بار پھر بیساکھیوں کے سہارے میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہوا تو بورڈ نے یہ کہہ کر داخلہ دینے سے انکار کردیا کہ تم دو بیساکھیوں کے سہارے چلتے ہو، مریضوں کا علاج کیسے کرو گے۔یہ لمحے عزم و ہمت کے پیکر اس نوجوان کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھے۔وہ بورڈ کے سامنے رونے لگا، بورڈ اراکین نے اسے ایک ماہ کا وقت دیتے ہوئے ایک بیساکھی کے سہارے چل کر دکھانے کی ہدایت کی، اس نے ایک بیساکھی کے سہارے چلنے کی دن رات مشق کی اور مقررہ تاریخ کو بورڈ کے سامنے ایک بیساکھی کے سہارے چل کر پیش ہوگیا۔اسے علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ دے دیا گیا۔داخلہ فیس اور کرایہ ہاسٹل کے لیے اس کے والد نے اپنا کل اثاثہ دو مرلے زمین کا ٹکڑا اور ایک گائے بیچ دی۔ایم بی بی ایس میں داخل ہوئے بمشکل چار ماہ گزرے تھے کہ رقم ختم ہوگئی۔محمد جواد بھٹی کو اپنی ساری جدوجہد رائیگاں ہوتی دکھائی دے رہی تھی ۔ اس روز وہ کلاس پڑھنے نہیں گیا تھااور ہاسٹل کے کمرے میں بیٹھ کر رو رہا تھااور اللہ سے مدد کی دعا کرنے میں مشغول تھا،اس کا دوست کلاس پڑھ کے آیا تو اس نے اس کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو محمد جواد بھٹی نے اسے سارا ماجرا سنا دیا۔اس دوست نے اسے اپنی ذاتی جیب سے رکشے کا کرایہ دیا اور مستحق باصلاحیت طلبہ کو مالی مدد دینے والے ادارے کاروان علم فائونڈیشن میں درخواست دینے کا کہا۔ محمد جواد بھٹی کی داستان سن کر کاروان علم فائونڈیشن نے فوری طور پر تمام اخراجات کے لیے اسکالرشپ جاری کردیا۔محمد جواد بھٹی نے اس اسکالرشپ سے ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی اور آج وہ ضلع شیخوپورہ میں ایک ہیلتھ یونٹ کے انچارج کے طور پرخدمات سرانجام دے رہا ہے۔
ایسے ہزاروں طلبہ ہیں جن کے خوابوں کو کاروان علم فائونڈیشن نے تعبیر دی ہے۔یہ ادارہ سولہ سال پہلے میرے استاد اور محسن ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے قائم کیا،وہ سفید پوش طلبہ کی دست گیری اپنی ذاتی جیب سے کئی سالوں سے کررہے تھے کہ 2003میں انہیںمستحق مگر باصلاحیت طلبہ کی دست گیری کو تنظیم کی شکل دینے کا خیال آیا،اس کی ایک وجہ شائد یہ بھی ہے کہ خود انہوں نے انٹر میڈیٹ علی گڑھ سے اور پی ایچ ڈی کی تعلیم جرمنی سے اسکالرشپ پر حاصل کی ۔ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی جہاں ہزا روں نوجوانوں کے محسن ہیں وہاں مجھ پر بھی ان کے بے شمار احسانات ہیں، انہی کی مدد سے میں نے تعلیم مکمل کی اور پھر ان کے ادارے میں ملازمت کرکے صحافت میں کرئیر کا آغاز کیا۔
یہ ادارہ بلا تفریق رنگ و نسل پورے ملک اور آزادکشمیر کے طلبہ کو خالصاً میرٹ پر اسکالرشپ فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے سے مستفید ہونے والے طلبہ ایک طرف خضدار کی یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں تو دوسری طرف آزادکشمیر کے دور افتادہ مقام پر۔ اسی طرح گلگت و بلتستان کے پسماندہ دیہات سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی اسکالرشپ پر ملک کے اہم تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔اسکالرشپ فراہم کرنے کا طریقہ کار بھی انتہائی قابل تعریف ہے، ہر طالب علم کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے سالانہ فیس،کرایہ ہاسٹل،ماہوار خرچ طعام، آمدورفت،کتب،علاج معالجے کی مد میں اسکالرشپ فراہم کیا جاتا ہے۔
نہایت غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی بیوہ مائوں اور معذور و ضعیف والدین کو گھریلو اخراجات کے لیے بھی مالی مدد فراہم کی جاتی ہے ۔ جب ایک غریب گھرانے کا باصلاحیت نوجوان میڈیکل،انجینئرنگ ،سائنس و ٹیکنالوجی،کامرس اور سوشل سائنسز میں اعلیٰ تعلیم مکمل کرتا ہے تو معاشرے اورملک پر اس کے کئی طرح کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
کاروان علم فائونڈیشن اب تک6433طلبہ کو168,905,116/- روپے کے اسکالرشپ جاری کرچکا ہے۔جس میں 1125یتیم طلبہ اور 405خصوصی طلبہ(نابینا،پولیوزدہ اور حادثات کی وجہ سے معذور) شامل ہیں۔ کاروان علم فائونڈیشن کو405زیر کفالت اور 230زیر غور طلبہ کواسکالرشپ جاری کرنے کے لیے 6کروڑ روپے درکار ہیں ۔ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ایک فرشتہ ہیں۔ انہیں ڈھونڈنے میں کوئی دقت نہیں ،یہ فرشتہ آپ کے آس پاس ہی کہیںموجودہے۔ اسے پکار کر تو دیکھیں۔ وہ اللہ کی نعمت اور رحمت کی مجسم علامت ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024