بلوچستان میں دہشتگرد ی ایک گمراہ کن عکس

Mar 30, 2025

غلام حیدر شیخ

حالیہ بلوچستان میں بولان کے مقام پر جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے کے جواب میں ملکی دفاعی اداروں کے ہاتھوں سارے دہشت گرد ہلاک ہوئے ، اس دہشت گردانہ حملے کے پیچھے کئی عوامل ہیں ، عمومی طور پر اس قسم کی کاروائیوں میں علیحدگی پسند یا عسکریت پسند گروہوں کا ہاتھ ہونے کے علاوہ بیرونی عناصر کی مداخلت اور سیاسی مقاصد بھی کار فرما ہوتے ہیں، جعفر ایکسپریس پر حملے اور مسافروں کو یرغمال بنائے جانے والی کاروائی ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کی گئی جس میں شامل دہشت گرد حاصل شدہ وسائل ، معلومات اور واضح مقصد کے تحت یقینی طور پر تربیت یافتہ تھے ، سیکورٹی میں کوتاہی کی صورت میں اکثر ایسے واقعات پیش آ جاتے ہیں کیوںکہ کہیں نا کہیں کوئی کمزوری رہ جاتی ہے ، لیکن دوسری طرف یہ واضح ہے کہ اس کاروائی کے پیچھے گہری منصوبہ بندی اور لمبے عرصہ کی تیاری کار فرما تھی ، لہذا یہ دونوں عوامل کی صورتحال کو جنم دیتی ہے ،سیکورٹی اداروں کی پیشہ ورانہ مہارت اور قربانی کو تسلیم کیا جانا چاہئے ، خاص طور پر ایسی پیچیدہ صورتحال میں قومی محافظوں کا کردار قابل تحسین اور نا قابل فراموش ہے ، جس میں سیکورٹی فورسز نے قابل رشک طریقے سے یرغمالیوں کو بچایا ،اور دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا ، یہ ایک بڑی کامیابی ہے مستقبل میںدنیا کے پیرا ملٹری، انسداد دہشت گردی ، سیکورٹی فورسز ٹریننگ اکیڈمی جیسے تعلیمی اور تربیتی اداروں میںا س کا حوالہ دیا جاتا رہے گا ، لیکن بد قسمتی سے ایک مخصوص گروہ جو کہ اپنے آپ کو سیاسی پارٹی سمجھتا ہے اور مقبولیت کا دعویدار بھی ہے ، اس سارے معاملے میں منفی کردار کرتا دیکھا گیا ، مزید برآں عمران خان کا دہشت گرد حملے کی مذمت نہ کرنا اور اپنے پارٹی رہنمائوں کو قومی سلامتی کے اجلاس میں شرکت سے روکنا یقیناً ایک غیر جمہوری ،غیر معمولی اور غیرسیاسی رویہ ہے ، جس سے ان کی غیر سیاسی سنجیدگی اور ریاستی امور سے دوری ظاہر ہوتی ہے ،جعفر ایکسپریس پر دہشت گردانہ حملے پر عمران خان کا خاموش رہنا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے، ان کی سیاسی تنہائی اور حکومتی پالیسیوں سے اختلاف اپنی جگہ لیکن اپنے اس رویہ سے دہشت گردوں کو تقویت دینا کسی طور بھی ملک وقوم سے مخلص ہونے کی نفی ہے ، عمران خان کی بیانیہ سازی دہشت گردوںکے موقف کو فائدہ پہنچا رہی ہے، اور قومی یکجہتی کو دنیا کے سامنے متنازع بنانے کا سبب بھی ہے ۔ بلوچستان میں دہشت گردی کا یہ واقعہ انتہائی حساس نوعیت کا تھا ،گو کہ دہشت گرد گمراہ ہیں اور سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں ،بلوچ عوام محب وطن ہیں اور وہ پاکستان سے بے پناہ محبت کرنیوالے ہیں ، لیکن بلوچستان میں دہشت گردی کے کئی عوامل ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، اور انہیں بلوچستان میں سماجی ، سیاسی اور جغرافیائی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے ، لہذا مقامی آبادی کو شکوہ ہے کہ گوادر، ریکوڈک کے سونے اور تانبے کے ذخائر ، سوئی گیس اور دیگر وسائل پر ان کا مناسب حصہ تسلیم کیا جائے ، سر دست غربت اور بیروزگاری کے باعث نوجوان عسکریت گروپوں میں شامل ہو جاتے ہیں ۔
بلوچستان میں دہشت گردی کا مسئلہ صرف ایک وجہ کی بنیاد پرنہیںہے ، بلکہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جس میں سیاسی ، اقتصادی ، سماجی اور بین الاقوامی عوامل بھی ہیں ، لہذا اس مسئلے کے حل کیلئے ایک جامع پالیسی ، سیاسی مذاکرات ، اقتصادی ترقی اور عوام کو ان کے حقوق دینے کی ضرورت ہے ، بصورت دیگر بلوچ قوم پرست ، علیحدگی پسند اور عسکریت پسند گروپ مالی امداد اور اسلحے کیلئے مختلف ذرائع سے منسلک رہیں گے ، جن میں غیر ملکی ریاستیں ، غیر سرکاری تنظیمیں ، منشیات ،اسلحے کی ا سمگلنگ اور مقامی مددگارملوث ہیں ، حکومت پاکستان اور سیکورٹی ادارے ان ذرائع کو روکنے کیلئے مختلف اقدامات کر رہے ہیں ، لیکن یہ ایک مسلسل چیلنج ہے ، جس میں ’’ گریٹربلوچستان ‘‘ کا تصور بلوچ قوم پرست ، علیحدگی پسند وں کی ایک نظریاتی خواہش ہے ،نقشے میں گمراہ کئے گئے افراد نے پاکستان ، ایران اور افغانستان کے مختلف علاقے شامل کئے ہیں ۔
پاکستان کے بلوچستان کا اہم شہر کوئٹہ، گوادر، تربت ،خضدار،مستونگ، پنجگور ،چمن، نوشکی ، سبی ۔ والبدین اور اہم علاقے مکران، جھل مگسی،کوہلو،ڈیرہ بگٹی زیارت اور بولان جہاں جعفر ایکسپریس پر یہ حملہ آوار ہوئے تھے ،ایران کے اہم شہر زاہدان، چابہار، سراوان، ایرانشہر، خاش اور اہم علاقے سیستان بلوچستان ، افغانستان کے اہم شہر ، قند ھار ، ہلمند ،نیمروز،زاہل ،فراہ، اور اہم علاقے ریگستانی علاقے، جو بلوچ قبائل کے زیر اثر رہے ، علیحدگی پسندوں اور قوم پرستوں کا یہ تصور ہے لیکن عملی طور پر یہ ایک سیاسی مطالبہ تو ہو سکتا ہے لیکن اسے نا ہی تین ممالک بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم نہیں کیا جاتا ، کیونکہ یہ ایک گمراہ کن عکس ہے ، اور سراب کے پیچھے دوڑنے والوں کا مقدر موت ہی ہوتا ہے ۔
بلوچستان میں نہ صرف قوم پرست گروہ ، علیحدگی پسند عناصر بلکہ مذہبی شدت پسند تنظیمیں بھی سر گرم ہیں ، بلوچستان کی سرحد افغانستان اور ایران سے ملتی ہے جس کی وجہ سے یہاں دہشت گردوں کی آمد و رفت نسبتاً آسان ہو جاتی ہے ، افغان جنگ کے اثرات بلوچستان پر زیادہ پڑے ہیں، اور ماضی میں افغان مہاجرین اور عسکریت پسند گروہ یہاں پناہ لیتے رہے ہیں ، دنیا میں کسی بھی دہشت گرد حملوں میں دہشت گرد کامیابی کے باوجود عبرت ناک موت کا شکار ہوئے ہیں ۔ انتہاء پسندی ، دہشت گردی اور شدت پسندی بصری تاثر کے شکار گروہ کا بینائی پر ظاہر ہونے والا مغالطہ ہے ، جس کی وجہ سے انسان گمراہی کے عکس کے گرداب میں پھنس کر دم توڑ دیتاہے، یہی وجہ ہے کہ فریب نظر میںمبتلا دہشت گردٖغلیظ موت کا شکار ہو کر عبرت کا نشان بنتے ہیں لیکن ان کے پیش رو عبرت حاصل نہیں کرپاتے کیونکہ سراب کا گمراہ کن عکس ان کی آنکھوں اور عقل پر پردہ ڈالے رکھتا ہے اور یہ دہشت گرد مغالطے اور گمراہی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔
٭…٭…٭
 

مزیدخبریں