مجید نظامی بظاہرایک فرد کا نام ہے،مگر فی الحقیقت وہ ایک تحریک ، جماعت اور نظریہ تھے۔ وہ جب میدا ن صحافت میں آئے تھے تو دبلے پتلے ، گورے چٹے اور گھنگریالے بالوں والے ایک بانکے اور سجیلے نوجوان تھے۔ اب ان کا سراپا ان کی ستر سالہ صحافت اور باون سالہ ادارت کی ریاضتوں کا پرتوتھا۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے اپنے بڑے بھائی حمید نظامی مرحوم کے پاس لاہور آگئے تھے۔ حمید نظامی انکے لاہور آنے سے پہلے ہی سیاست اور صحافت میں اپنا لوہا منواچکے تھے۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن جو پنجاب میں تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم کا ہراول دستہ تھی کے قائد اور پندرہ روزہ نوائے وقت کے ایڈیٹر کی حیثیت سے لاہو ر کی صحافت میں ان کا نام درخشندہ ستارے کی طرح چمک رہا تھا۔مجید نظامی بھی حصول تعلیم کی منازل طے کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بڑے بھائی کی صحافت میں انکے رفیق بنتے چلے گئے۔
1978ء میں جب والد محترم۔۔قاضی سراج الدین سرہندی کا انتقال ہوا تو جناب مجید نظامی نے ان کی رحلت پر مجھ سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک زمانے میں میرے ذمہ نوائے وقت کے ’ڈبے ‘تیار کرنے کا کام ہوتا تھا۔یہ ڈبے تیار کرتے وقت میری نگاہ اکثر ایک پتہ پر ٹھہر جاتی تھی اس پتہ پر جن کا نام درج ہوتا تھا ان کے نام کے آخر میں سر ہندی اور شہر کا نام سر ہند درج ہوتاتھا۔ مجید نظامی صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیایہ میرے والد کا نام و پتہ تھا جنہیں باقاعدگی سے نوائے وقت پوسٹ کیا جاتا تھا ، میں نے انہیں بتایا کہ جس زمانے کا آپ ذکرکر رہے ہیں ، میری عمر چھ سات برس تھی مگر مجھے یہ معلوم ہے کہ میرے چچا قاضی ظہورالدین مسلم لیگ سرہند شاخ کے جنرل سیکرٹری تھے، اس لئے گمان یہی ہے کہ نوائے وقت ان کے پتہ پر پوسٹ کیا جا تا ہو گا ، یہ واقعہ بیان کر نے کا مقصد یہ ہے کہ حمید نظامی نے چھوٹے بھائی کو ابتداء سے ہی ان ذمہ داریوں کیلئے تیار کرنا شروع کر دیا تھا جو فروری 1962ء میں انکے سانحہ ارتحال کے بعد جناب مجید نظامی کو سنبھالنا پڑیں۔ اسی طرح وہ اخبار کے تمام چھوٹے بڑے شعبوں کے کاموں کی نوعیت سے اچھی طرح واقف تھے۔
مجید نظامی ، نوائے وقت کے روزانہ اخبار بن جانے کے بعد اسکے ادارتی کا موں میں معاونت کرنے لگے۔ رپورٹنگ کیلئے مختلف تقاریب میں بھیجے جانے لگے اور انتظامی شعبے میں بھی ہاتھ بٹانے لگے ، ان کا پسندیدہ کام نوائے وقت کا فکاہی کالم ’’سرراہے‘‘ تحریر کرنا تھا جہاں انہیں طنزومزاح کی اپنی خداداد صلاحیتوں کے مظاہرے کا موقع ملنے لگا۔ یہ کالم کبھی مولانا چراغ حسن حسرت ، مولانا وقار انبالوی اور پروفیسر محمد سلیم لکھتے رہے۔ جناب حمید نظامی نے قیام پاکستان کے اولین عشرے میں جناب مجید نظامی کو بیرسٹرایٹ لاء بننے کے لئے لندن بھیج دیا جہاں وہ حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ نوائے وقت کی نمائندگی کرتے رہے۔ مکتوب لندن کے عنوان سے ان کی شگفتہ تحریر یں یا قلم پارے نوائے وقت کے ادارتی صفحہ کی سا لہاسال زینت بنتے رہے۔
25فروری 1962ء کو جناب حمید نظامی جنہیں تین چار دن پہلے ہی مارشل لاء کی گھٹن کے باعث دل کا دورہ پڑا تھا اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ تین روز بعد 28فروری 1962ء کو ایوب خاں اپنے آئین کا اعلان کرنے والے تھے۔ دراصل آئین کی تر ویج کا یہی حبس تھا جس نے حمید نظامی کیلئے سانس لینا دشوار کر دیا۔ مجید نظامی بڑے بھائی کی شدید علالت کی خبر سن کر ایک روز پہلے ہی لندن سے لاہور پہنچے تھے۔ مصطفی صادق اور میں ان دنوں لائل پور سے روزنامہ ’وفاق ‘شائع کررہے تھے۔ یہ اخبار25 دسمبر 59ء سے ہفتہ وار شائع ہو رہاتھا اور یکم فروری1962ء سے روزانہ شائع ہوناشروع ہوا تھا ، ہم دونوں کو جناب حمید نظامی سے ان کی جرات و بے با کی کے باعث بڑی عقیدت و ارادت تھی سات روزہ وفاق میں شائع ہونے والے مصطفی صادق کے کئی مضا مین جناب حمید نظامی نے نوائے وقت کے ادارتی صفحہ پر نقل کئے تھے اور مجھے بھی 1959ء میں نوائے وقت کے لائل پور آفس میں سٹاف رپورٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع میسرآیا تھا اور میں یکم ستمبر 1959ء کو جناب حمید نظامی سے ٹمپل روڈ پر واقع ان کی اقامت گاہ پر ملاقات کا شرف بھی حاصل کر چکا تھا۔ اْ نہوں نے از راہ کرم مجھے یہ کہہ کر سٹاف رپورٹر مقرر کیاکہ اگرچہ ہمیں ایک معمر شخص بحیثیت رپورٹر درکار ہے مگر جب تک ایسا آدمی دستیاب نہیں ہوتا اس وقت تک تم کام کرتے رہو اور جب تھوڑے ہی عرصہ بعد اس منصب پر لائل پور کے بزرگ صحافی جناب برکت دارا پوری کا تقرر عمل میں آیا تو مجھے سبکدوش کرتے ہوئے یہ سرٹیفیکیٹ بھی عطا کیاکہ ہم محض صغرسنی اور طالب علمی کی وجہ سے تمہاری خدمات سے فائدہ نہیں اٹھا سکے تمہاراکام اچھا تھا۔
یہ کہانی اس لئے بیان کی گئی ہے کہ نوائے وقت اور حمید نظامی اور مجید نظامی سے وابستگی کا پس منظر سامنے آجائے ، جناب حمیدنظامی کی رحلت کے سانحہ کی خبر کیلئے ’’وفاق ‘‘ نے اپنا پہلا اور آخری صفحہ وقف کیا اوراخبار کی لوح اوپر دائیں طرف لگانے کی بحائے احتراماً بالکل نیچے بائیں طرف لگائی ، یہ صفحات تیار کرتے ہوئے ہمیں یہ معلوم کرنے کی بھی جستجو تھی کہ جناب حمید نظامی کا جانشین کسے مقر ر کیا جارہاہے۔ اس مقصد کیلئے مصطفی صادق صاحب نے دفتر نوائے وقت لاہور میں متعدد فون کئے۔ رات گیارہ بجے کے لگ بھگ باربار رابطوں کے بعد جناب عبدالقادر حسن نے جو اس شب نوائے وقت کے نیوز ڈیسک پر بطور سب ایڈیٹر فرائض انجام دے رہے تھے ہمیں یہ خبر دی کہ کل صبح کے اخبار میں جناب مجید نظامی کا نام بطور ایڈیٹر شائع ہوگا،اس طرح وفاق ملک کا واحد روزنامہ تھا جس نے حمید نظامی کے سانحہ ارتحال کی خبروں کے درمیان صفحہ اول پر ایک باکس میں یہ خبر بھی شائع کی کہ جناب مجید نظامی روزنامہ نوائے وقت کے ایڈیٹر ہوں گے۔
مجھے-64 1963ء میں چندماہ روزنامہ نوائے وقت لاہور اورملتان میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے اپنے تجربہ کے ثبوت کے طو ر پر جناب مجید نظامی کو ادارہ نوائے وقت کا مذکورہ بالاخط دکھایاجسے پڑھ کر انہوں نے کہا۔۔اب تو نہ صغر سنی ہے اور نہ ہی طالب علمی اس لئے آپ فوراًکام شروع کردیں۔ نوائے وقت میں کام کرنے کے دوران اخبارکی تدوین و ادارت پر انکی گرفت اور گہری نظر نے بہت متاثر کیا اورانکی رہنمائی کے گہرے نقوش لے کر وہاں سے رخصت ہوا۔
جناب مجید نظامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی جناب حمید نظامی کے سانحہ ارتحال (25 فروری 1962ء) کے بعد نوائے وقت کی ادارت سنبھالی اور نوائے وقت کا پرچم ارباب حکومت کے جبر و ستم کے سامنے جھکنے نہیں دیا۔ عنان ادارت سنبھالنے کے بعد وہ گورنر ملک امیر محمد خان (ایوب خان کے دست راست) سے ملنے گورنر ہائوس گئے تو گورنر صاحب نے مجید نظامی سے کہا۔ ’’اگر صدر ایوب خان مجھے آج نوائے وقت بند کرنے کیلئے کہیں گے تو میں ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر ان کے حکم کی تعمیل کر گزروں گا مگر تمہارے لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ مرد بن کر رہنا۔‘‘ امر واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی پوری صحافتی اور ادارتی زندگی مرد بن کر گزاری۔
جناب مجید نظامی نے انگریزی روزنامہ THE NATION ، بچوں کے رسالہ پھول، خواتین کے لئے فیملی میگزین، اْردوسات روزہ ندائے ملت کا اجراء کیا۔ نوائے وقت کا ملتان ایڈیش جو بند ہو چکا تھا اس کا احیا کیا۔ وہ کئی بار آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر رہے، ایک بار جب وہ ان دونوں جماعتوں کے صدر تھے اے پی این ایس کی سالانہ تقریب میں صدر جنرل ضیاء الحق مہمان خصوصی تھے۔ انہوں نے اپنے لکھے ہوئے خطبہ صدارت سے ہٹ کر اور اپنی عینک اتار کر جناب مجید نظامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ، انہیں میرے دو ٹوپیاں (صدر مملکت اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر) بننے پر اعتراض ہے مگر خود دو ٹوپیاں (اے پی این ایس اور سی پی این ای کی صدارت) پہنے ہوئے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کی خواہش تھی کہ نوائے وقت کا ایک پینل ان کا انٹرویو کرے، وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ جناب مجید نظامی بھی اس موقع پر موجود ہوں، جب یہ انٹرویو ہو چکا تھا تو جنرل ضیاء الحق نے ان سے پوچھا کہ نظامی صاحب سے آپ نے کوئی سوال نہیں پوچھا۔ نظامی صاحب نے ایک لمحہ توقف کے بغیر پنجابی میں سوال کیا کہ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ ہماری جان کب چھوڑیں گے۔
جناب حمید نظامی ہوں یا ان کے جانشین جناب مجید نظامی وہ تحریک پاکستان میں بھی شانہ بشانہ رہے اور استحکام پاکستان کی جدوجہد میں بھی۔ دونوں بھائی پاکستان اور جمہوریت کو لازم و ملزوم تصور کرتے تھے۔ جناب حمید نظامی پاکستان بنتے ہی حزب اختلاف کی توانا آواز بن گئے۔ یہی طرز عمل جناب مجید نظامی نے اختیار کیا۔ ایک صاحب نے میری موجودگی میں ان سے سوال کیا کہ نوا ز شریف سے آپ کے تعلقات کیسے ہیں۔ انہوں نے فرمایا نواز شریف سے تعلقات بہت اچھے ہیں مگر وزیراعظم پاکستان سے خراب ہیں۔ نوائے وقت، نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور ایوان اقبال، استحکام پاکستان میں وہی کردار ادا کررہے ہیں جو انہوں نے قیام پاکستان کی عہد آفریں تحریک میں ادا کیا تھا۔ ان کی تمنا رہی کہ پاکستان علامہ اقبال، قائداعظم اور حمید نظامی کے تصورات اور خوابوں کا پاکستان بنے اور ہم سب اسی امید میں زندہ ہیں۔(جاری ہے)۔
مجید نظامی(1)
Mar 30, 2025