پولیس عوام دوست کب بنے گی؟ 

Mar 30, 2025

گلزار ملک

گلزار ملک

  محکمہ پولیس کی بڑھتی ہوئی زیادتیوں بد اخلاق رویوں اور ناانصافیوں کے متعلق ہم اپنے کالموں میں اکثر زکر کرتے رہتے ہیں لیکن افسوس در افسوس کہ اس پولیس کلچر میں ذرا بھی تبدیلی نہیں آئی آخر یہ پولیس عوام دوست کب بنے گی؟ آئے دن اخبارات میں عوام کے ساتھ پولیس والوں کی زیادتیوں کی خبریں بڑھتی ہی جا رہی ہیں اور اس میں نہ تو محکمہ پولیس کے افسران بالا کوئی توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی حکمران کوئی نوٹس لیتے ہیں جب تک ایسے پولیس اہلکاروں کو لگام نہ ڈالی گئی اس وقت تک پولیس کے ساتھ عوام دوستی کا خیال کرنا بے مقصد ہے یہاں پر میں تمام پولیس اہلکاروں کی بات نہیں کرتا مگر اکثریت کچھ ایسی ہو چکی ہے کہ ان میں اچھے لوگوں کی بھرتی بہت کم ہے خاص کر کے کانسٹیبل حضرات جو ظلم و زیادتی کرتے ہیں بغیر نمبر پلیٹ کی موٹر سائیکلوں پر یہ سارا سارا دن لاہور شہر کے مختلف علاقوں میں گھومتے ہیں اور لوگوں کو بلا وجہ تنگ پریشان کر کے دیہاڑیاں بناتے ہیں اور اب جیسے جیسے عید قریب آتی جا رہی ہے عیدی کے نام پر نوجوانوں اور دیگر افراد کو روک کر زبردستی عیدی وصول کی جاتی ہے۔ اگر جرم کرنے والے کو ایک بار سر عام سزا دی جائے تو میرا خیال ہے کہ دوسرے اس سے عبرت پکڑیں گے جرم خواہ کسی عوام کے بندے نے کیا ہو یا کسی پولیس اہلکار نے جرم ثابت ہونے پر اس کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں برتنی چاہیے پھر دیکھنا یہ پولیس کلچر کیسے سیدھا ہوتا ہے۔ لہذا کسی بھی مہذب معاشرے میں پولیس کا کردار بہت اہم اور بہت قابل احترام ہوتا ہے کیونکہ پولیس معاشرے میں جرائم کی روک تھام اور امن قائم کرنے کا عہد اٹھاتی ہے مگر جس کا پاس ہر کوئی نہیں رکھتا۔
 گزشتہ دنوں ایک پولیس اہلکار کی وردی میں ایک ایسی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ ایک گداگر خاتون کو کھیتوں میں لے جا کر زیادتی کا نشانہ بنا رہا تھا جسے ایک نوجوان نے اسے لے جاتے ہوئے دیکھ لیا اور اس کی ویڈیو بنانا شروع کر دی اس پولیس اہلکار کو روکنے کی اس نے بڑی کوشش کی اس پولیس اہلکار نے اسے گندی گالیاں دیں اور ویڈیو بنانے سے زبردستی روکنے کو کہا مگر نوجوان بھی دلیر تھا اس نے اس کی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دیا اور ویڈیو بناتا رہا اس زیادتی کے دوران ہی برہنہ حالت میں اس پولیس اہلکار نے اپنے دستی ریوالور سے اس شخص پر گولی چلا دی جس سے وہ شخص شدید زخمی ہو گیا اب آپ اندازہ کریں کہ کیا ایسے محافظ ہوتے ہیں اب اگر اس شخص کو سر عام اس واقعہ کی سزا دی جاتی تو میرا خیال نہیں کہ دوسرے پولیس والے اس طرح کا گناہ کرنے کی کوئی جرآت کریں اس طرح کی غنڈہ گردی اور بدمعاشی کی وجہ سے آئے دن ان کی پولیس گردی اور بدمعاشیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
 یہاں پر ان پولیس اہلکاروں کی ایک اور دیدہ دلیری اور بدمعاشی کا ذکر کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں اس سے قبل ہم اپنے کالموں میں اس غنڈہ گردی کا زکر بارہا مرتبہ کر چکے ہیں۔ کہ لاہور شہر میں گٹکا نام کی کوئی چیز فروخت نہیں ہوتی اور ہم اس میں یہ بھی بتا چکے ہیں کہ جس کو یہ پولیس والے گٹکے کا نام دے کر دیہاڑی بنا رہے ہیں اور جھوٹیاں ایف آئی آر درج کر کے ان غریبوں کو تنگ اور پریشان کر رہے ہیں یہ وہ قوام ہے جسے لوگ گزشتہ 60 سال سے پان میں استعمال کرتے تھے اور اب اس کو سپاریوں میں استعمال کر رہے ہیں ان غریب دکانداروں کو تنگ اور پریشان کرنے کے لیے خاص کر کے تھانہ مصری شاہ ، شاد باغ ، گجر پورہ بادامی باغ کے علاقہ کی پولیس انہیں منتھلی نہ دینے پر بلا وجہ تنگ اور پریشان کرتی رہتی ہیں اور جھوٹی ایف آئی آر درج کر کے انہیں ذلیل و خوار کرتی رہتی ہیں۔ مجھے یہاں پر یہ سمجھ نہیں آتی کہ آیا کیا شہر لاہور میں منشیات فروشی کا دھندہ ختم ہو گیا ہے نہیں وہ بھی چل رہا ہے کیونکہ وہ بڑے گرگئے ہیں شاید ان پولیس اہلکاروں کو وہ اس لیے نظر نہیں آتے کہ وہ اندر کھاتے ان کو منتھلی پہنچا دیتے ہیں اور اب یہ پان فروش بیچارے صبح سے لے کر شام تک ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر دکانداری کرتے ہیں وہ ان کو منتھلی کہاں سے دیں۔ جو سارا سارا دن اپنے بچوں کی روٹی کماتے ہیں اور یہ شام کو آکر اپنی دیہاڑی بنا کر لے جاتے ہیں جو نہیں دیتا اسے ایف آئی آر کی دھمکی دی جاتی ہے بالاآخر مجبوراً ان کے ساتھ ان کو ملی بھگت کرنا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ پولیس اہلکار ان دکانداروں سے بوتلیں سگرٹیں وغیرہ پولیس وردی کی دھونس میں مفت میں لیتے ہیں جب ان اہلکاروں کو یہ چیزیں مفت میں فراہم نہیں کی جاتی تو یہ فورا آنکھیں ماتھے پر رکھ کر اسے ایف آئی آر درج کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا کب افسران بالا اور حکمران اس طرف توجہ دیں گے اور کب یہ لوگ امن اور سکون کی زندگی بسر کر سکیں گے۔

مزیدخبریں